کراچی(این این آئی)اقلیتوں کوخوش کرنے کیلئے غیر اسلامی قانون سازی قبول نہیں ،18سال سے کم عمر کے افراد پر قبول اسلام کی پابندی لگانا یورپ ومغرب کو خوش کرنے کے مترادف ہے ،چیئرمین اسلامی تحریک طلبہ پاکستان غلام عباس صدیقی نے کہا ہے کہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے نام پر کریمنل لاء پروٹیکشن آف مینارٹی 2015 ء کی منظوری مکمل طور پر شریعت سے بغاوت پر مبنی ہے۔حکومت کی طرف سے اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے نام پر کریمنل لاء پروٹیکشن آف مینارٹی 2015 ء بل کی منظوری جیسے غیر شرعی بل سے پاکستان کا سلامی تشخص داؤ پر لگ گیا ہے ۔
ہر عمر کا انسان رضا مندی سے اسلام قبول کر سکتا ہے اس پر شریعت اسلامیہ میں کوئی پابندی نہیں مگر حکومت پاکستان یورپ ومغرب کو خوش کرنے کیلئے اسلام مخالف بل پاس کرکے اسلامیان پاکستان کی غیرت کو ایک بار پھر للکارا ہے ،حکومت اسلام دشمن اقدام کرکے پاکستان کے اسلامی تشخص کو مجروح کرنے سے باز رہے ۔قانون سازی کرنے والے لوگ اسلام اور اسلامی اقدار وروایات سے نا بلد لگتے ہیں یا عالم کفر کو خوش کرنے کیلئے یہ سب کچھ کر رہے ہیں جسے کسی قیمت پر قبول نہیں کی جا سکتا ،حکومت اپنے اسلام مخالف اقدام پر غور کرتے ہوئے قانون کو کالعدم قرار دے ۔
انہوں نے کہا کہ قبول اسلام کے لئے 18 سال کی حد مقرر کرنا زمین پر فرعون بننے کے مترادف ہے ۔اللہ تعالیٰ نے جب انسانوں کو رضامندی سے اسلام قبول کرنے کی ہر عمر میں اجازت دی ہے توپاکستان کے قانون ساز ادارے اللہ رب العزت کے مقابلے میں قانون سازی کرکے زمین پر خود ساختہ رب بننے کی جسارت کر رہے ہیں جسے شریعت اسلامیہ نے بغاوت کہا ہے حکمران اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام خلافت قائم نہ کرکے پہلے ہی بغاوت کا ارتکاب کر رہے ہیں جبکہ مزید غیر شرعی قانون سازی مزید عذاب الہٰی کا سبب بنے گی ۔لہٰذا حکومت ا سلام مخالف قانون سازی پر نظر ثانی کرے ورنہ دینی قوتیں پاکستان کے اسلامی تشخص کو بچانے کیلئے احتجاجی تحریک چلانے پر مجبور ہو جائیں گی۔انہوں نے کہا کہ ہر جماعت کا طالب علم جب اسے اسلام کی حقانیت کا علم ہوجائے تو وہ اسلام قبول کر سکتا ہے حکومت کا یہ قانون اقلیتوں کی نسل نو کو اسلام سے دور کرنے کی سازش ہے ۔اوچھے ہتھکنڈے غلب�ۂ اسلام کو نہیں روک سکتے ۔اسلام اور پاکستان سے وفا یہی ہے کہ پاکستان میں قرآن وسنت کو عملاً سپریم لاء تسلیم کیا جائے جسے آج تک تسلیم نہیں کیا گیا۔
’’پاکستان میں یہ قانون اللہ کے عذاب کو آواز دینے کے مترادف ہے ‘‘
29
نومبر 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں