اسلام آباد(آن لائن ) اکرم شیخ نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ پاکستان سے کوئی پیسہ باہر نہیں گیا ، میاں شریف کے70کی دہائی میں صنعتی 6 یونٹ تھے، گلف اسٹیل دبئی کے امیر راشد المکتوم کی مدد سے لگائی گئی، 1980 میں پہلے 75 فیصد پھر 25 فیصد حصص بیچے گئے۔اکرم شیخ نے استدعا کی کہ وہ قطر کے سربراہ کی دستاویز عدالت کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں، اس لیے بعض دستاویزات صرف عدالت کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اکرم شیخ سے استفسار کیا کہ کیا آپ کو اس دستاویز کی حساسیت کا پتا ہے، جو دستاویزات آپ نے دی ہیں وہ وزیراعظم کے پارلیمنٹ میں بیان کے برعکس ہیں، وزیر اعظم کے عوامی موقف میں اور آپ کے بیان میں فرق ہے، وزیر اعظم نے پارلیمنٹ میں کہا تھا جو بچا کچا سرمایہ تھا اس سے دبئی میں مل لگائی، دبئی والی مل فروخت کرکے عزیزیہ میں مل لگائی گئی، کیا قطر کے سابق وزیراعظم گواہی کیلئے عدالت آئیں گے۔ اگر یہ جمع کرائی گئیں تودوسرا فریق چاہے گا کہ وہ بھی اس کا مطالعہ کرے۔ اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ آپ کے پاس اس کے علاوہ بتانے کوکچھ نہیں۔اکرم شیخ نے کہا کہ میں وزیر اعظم کے بچوں کا وکیل ہوں وزیر اعظم کا نہیں ، میں نتائج کی پرواہ کیے بغیر عدالت کی معاونت کروں گا۔وزیر اعظم کا جواب ان کے وکیل سلمان اسلم بٹ دیں گے۔سماعت کے دوران شیخ رشید نے موقف اختیار کیا کہ پورا ملک انصاف کے لیے آپ کی طرف دیکھ رہا ہے ، آج قطر سے دستاویزات آئیں کل گاندھی کی طرف سے آجائے جسکی تصدیق مودی نے کی ہو۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ لائر ہیں یا لائیر ہیں؟ اس دوران چیف جسٹس اور شیخ رشید کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔ چیف جسٹس نے انہیں مشورہ دیا ہے کہ وہ سیاست چھوڑ کر وکالت اختیار کرلیں جس پر شیخ رشید نے آپ کی تجویز پر غور کروں گا۔