فیصل آباد (آن لائن)زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کی کلیہ زرعی انجینئرنگ و صنعیات اور واٹر مینجمنٹ ریسرچ سنٹر کے اشتراک سے ربیع فیسٹیول کے تیسرے روز منعقدہ ایک روزہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی ارسا کے ممبر راؤ ارشاد علی خان نے کہا کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے 88فیصد فائدہ سندھ‘ خیبرپختونخواہ اور بلوچستان کا ہوگا لہٰذا ڈیم کی تعمیر میں رکاوٹ انہی صوبوں کیلئے نقصان کا باعث بن رہی ہے جس سے عوام کی محرومیوں میں آئے دن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ایک ملین ایکڑ فٹ پانی کے ذریعے 0.6 ارب ڈالرکی معاشی سرگرمیاں فروغ پاتی ہیں لیکن ہر سال 30ملین ایکڑ پانی سمندر
میں ضائع کرنے سے سالانہ 18ارب ڈالر کا نقصان ہورہا ہے ۔ 1960ء کی دہائی میں دریائے چناب‘ جہلم اور سندھ سے وابستہ زرعی رقبہ اتنا آباد نہ تھا جس کی وجہ سے بھارتی حکومت نے یہ دریا پاکستان کے حوالے کرنے میں زیادہ مزاحمت نہیں کی تھی تاہم گزشتہ ایک دہائی سے بھارتی حکومت کی طرف سے پاکستانی دریاؤں پر تعمیر کئے جانیوالے ڈیموں کے متنازعہ ڈیزائن پر ہمیں تحفظات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی سے اتنا نقصان نہیں ہوا جتنا ہماری سیاسی مصلحتوں اور بڑے ڈیم کی تعمیر میں تاخیر سے ہورہا ہے۔ دریاؤں اور آبی ذخیروں سے پانی کی تقسیم پر
دوسرے صوبوں کی غلط فہمیوں کی وضاحت کرتے ہوئے راؤ ارشاد علی خان نے کہا کہ اس کا م کی نگرانی ارسا کر رہا ہے لہٰذا پنجاب کا صرف ایک نمائندہ کس طرح پورے سسٹم کو ہائی جیک کرتے ہوئے بقیہ ممبران کو بھی صرف اپنے مفادکے پیچھے لگاسکتا ہے۔ ۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ڈیم کی فزیبلٹی ماہرین اور انجینئرنگ کا کام ہے لہٰذا سیاسی طور پر ڈیموں کی مخالفت چنداں مناسب نہیں۔ انہوں نے کہاکہ آبادی میں ہونے والے اضافہ کی وجہ سے پاکستان کے 996کیوبک میٹر کے مقابلہ میں بھارت میں فی کس دستیاب پانی کی شرح انتہائی کم ہے۔