کراچی (این این آئی) صوبائی مشیر اطلاعات مولا بخش چانڈیو نے موجودہ ملکی صورتحال اور لفظی جنگ کے حوالے سے ایک نجی ٹی وی چینل سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ گورنر سندھ پر جوسنگین الزامات لگے ہیں وہ اس سے پہلے کبھی نہیں لگے ۔جن کی تحقیقات ہونا ضروری ہے ۔انہوں نے کہا کہ گورنر کا عہدہ غیر سیاسی ہوتا ہے مگر کل سے گورنر نے کھل کر جواب دینا شروع کردیئے ہیں ۔ہم چاہتے ہیں کہ گورنر صاحب پر لگنے والے سنگین الزامات کی تحقیقات ہو تاکہ ان پر لگنے والے داغ دھل جائیں ۔تحریک انصاف کی جانب سے اسلام آباد بند کرنے کی دھمکی کے حوالے سے سوال کے جواب میں مولابخش چانڈیو نے کہاکہ اگر اس مرتبہ امپائر کی انگلی نتیجہ خیز اٹھی تو پھر شہید بھی ہونگے اور غازی بھی، اگر انگلی نہ اٹھی تو پھر نہ غازی ہونگے اور نہ شہید ہونگے، جیسے آئے تھے ویسے ہی خیر سے چلے جائیں گے، ایسا لگ رہا ہے کی اس مرتبہ امپائر نے بڑی یقین دہانی کرائی ہے کہ اس مرتبہ اس کی انگلی کوئی جادو دکھائیگی اسی لئے پی ٹی آئی والوں کا جاہ و جلال زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی والوں کو عوام کی سیاست پر بھروسہ نہیں ہے، یہ خاص طبقے کیلئے سیاست کرتے ہیں، رات کو نیند کرتے ہیں اور صبح کو دھرنے میں شریک ہوتے ہیں، پی ٹی آئی کو تصادم کی راہ اختیار نہیں کرنی چاہئے اور ان کے لیڈر کو گندی زبان استعمال کرنا زیب نہیں دیتا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کو تمام جماعتوں سے مل کر حکومت کے خلاف جدوجہد کرنے چاہئے، جس کے نتیجے بھی نکلیں گے، باقی اگر کسی انگلی کے اشارے پر کوئی نتیجہ نکلا تو اسے عوام قبول نہیں کرے گی۔ مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ تصادم والی سیاست کا آغاز ن لیگ کا ہی کیا ہوا ہے، پہلے کورٹ گئے تو چیف جسٹس کو بھاگنے پر مجبور کردیا اور کہا کہ طاقت ہم ہیںچیف جسٹس کوئی طاقت نہیں! صوبوں کے وفاق کے خلاف مظاہرے اور وزیراعلیٰ کے وفاق کے خلاف جلسے و جلوس کرنا یہ سب بدعتیں نوازلیگ نے دکھائی ہیں تو اب برداشت بھی کرنی چاہئیں، یہ سب کچھ نون لیگ کا کیا دھرا ہے جو انہیں کے سامنے آ رہا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر تحقیقات کے بعد وزیراعظم استعفیٰ نہیں دے تو پھر عدلیہ کو اختیار ہے جو آفاقی قسم کے اختیار استعمال کر سکتی ہے، دوسرا طریقہ عوامی طاقت ہے، جس میں تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لیکر چلنا ہے، مگر عمران خان کونسے فرشتے کے مشورے پر اکیلے لانگ مارچ کرنے چلے ہیں، پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی فرما چکے ہیں کہ جو چاہتے ہیں کہ اپوزیشن منتشر ہوگی تو انہیں مایوسی ہوگی، عمران خان کو ضرورت پڑی تو آئیں گے، اب میں یہ پوچھتا ہوں کہ عمران خان کی تنہا جدوجہد ناکامی کی طرف نہیں جائیگی تو کس طرف جائیگی؟۔