اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)مذہب کے الزام میں ایک امام اور اس کے شاگرد کو گرفتار کر لیا۔کوٹ رادھا کشن میں مرلی اتار گاؤں کے محمد امتیاز کی مدعیت میں پولیس کی جانب سے درج کیے گئے مقدمے کے مطابق اس نے ایک گلی میں 17 سالہ نوجوان کو قرآن کے اوراق جلاتے ہوئے دیکھا۔ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ محمد امتیاز نے اس نوجوان کو اس کی حرکت پر سمجھانے کی کوشش کی، تو اس نوجوان نے زور دیا کہ قرآن کے شہید اوراق کو تلف کرنے کا درست طریقہ یہی ہے کہ ان کو جلانے کے بعد زمین میں دفن کر دیا جائے۔مقدمے کے مطابق اس نوجوان نے اپنے موقف کی تائید کے لیے مقامی مسجد کے امام کو بھی بلایا جو کہ اس نوجوان کا استاد بھی تھا۔امام مسجد نے بھی نوجوان کے عمل کو درست قرار دیا جبکہ مبینہ طور پر اپنے دعوے کی صداقت کے لیے حدیث بھی پیش کی۔مقدمے کے مدعی نے جب یہ معاملہ اپنے نام نہاد پیر کو سنایا تو اس پیر نے اسے پولیس کو مطلع کرنے کی ہدایت کی۔ان معلومات کی بنیاد پر پولیس مذکورہ مقام پر آئی جبکہ اس امام مسجد اور نوجوان کو گرفتار کر لیا۔پولیس نے دونوں افراد کے خلاف توہین مذہب کی آئینی شق 295۔بی اور پاکستان پینل کوڈ کے تحت مقدمہ درج کیا۔
دوسری جانب22 جولائی 2015 کو سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں آسیہ بی بی کی اپیل باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کی گئی تھی اور کیس کا فیصلہ ہونے تک آسیہ بی بی کی سزائے موت پرعمل درآمد روک دیا گیا تھا۔لاہور رجسٹری میں جسٹس ثاقب نثار نے کیس کی ابتدائی سماعت کی، آسیہ بی بی کے خلاف تھانہ صدر ننکانہ میں ستمبر 2009ء میں توہین رسالت کا مقدمہ درج ہوا جس میں مزدوری کرنے والی خواتین کی جانب سے ایک جھگڑے کے بعد آسیہ بی بی پر توہین رسالت کا الزام لگایا گیا۔2010 میں ٹرائل کورٹ نے آسیہ بی بی کو موت کی سزا سنائی جسے لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تاہم ہائی کورٹ نے 2011ء میں اپیل خارج کردی۔
جمعہ کے روز یہ کیا ہوگیا؟امام مسجد اور نوجوان توہین مذہب کے الزام میں گرفتار، دونوں کیا کر رہے تھے؟
14
اکتوبر 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں