اسلام آباد(آن لائن) اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) کے سینئر ارکان نے واضح طور پر اس بات کی تردید کردی ہے کہ کم از کم پاکستان میں شوہروں یا سسرالیوں کے ہاتھوں خواتین پر تشدد نہیں ہوتا۔کونسل کے 2 سینئر ترین ارکان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی اللہ سے ڈرنے والے اور مذہبی سوچ رکھتے ہیں، جو اپنی بیویوں پر تشدد نہیں کرتے۔واضح رہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل، اپنے ایک رکن امداد اللہ کی جانب سے تحریر کردہ ‘تحفظ نسواں بل’ کے ایک مسودے پر غور کر رہی ہے، تاہم اس ڈرافٹ میں بیویوں پر تشدد کرنے والوں کے لیے کوئی سزا تجویزنہیں کی گئی۔سی آئی آئی کے مجوزہ بل اورخواتین پر تشدد کے خلاف پنجاب کے موجودہ تحفظ نسواں بل میں واضح فرق یہ ہے کہ کونسل کے تجویز کردہ بل میں خواتین کو ‘مجرم پارٹی’ کے طور پر اجاگر کیا گیا ہے جبکہ پنجاب کے بل میں صرف گھریلو تشدد کی شکار خواتین پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔کونسل کے مجوزہ 75 صفحات پر مشتمل بل میں تشدد کے طریقوں کو بیان کرتے ہوئے کہا گیا کہ اگر بیوی شریعت کی جانب سے بیان کردہ ذمہ داریاں پوری نہ کرے تو شوہروں کو ان پر ہلکے پھلکے تشدد کی اجازت ہے۔سی آئی آئی کے مجوزہ بل کے ذریعے خواتین پر تشدد کے موجودہ قانون کی مخالفت سے اس دعوے کا اظہار ہوتا ہے کہ پاکستان میں گھریلو تشدد نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ اس کے خلاف قانون سازی کی بھی ضرروت نہیں ہے۔جب اس معاملے پر علامہ افتخار نقوی سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ مغربی پروپیگنڈا ہے کہ خواتین کو یہاں ناانصافی اورناروا سلوک کا سامنا ہے’۔ساتھ ہی انھوں نے سوال کیا، ‘مجھے بتائیں، کیا آپ اپنی بیوی پر تشدد کرتے ہیں؟ نہیں۔ کیا آپ کی بیوی آپ پر تشدد کرتی ہے؟ نہیں۔ لہذا کون یہ پروپیگنڈا پھیلا رہا ہے؟’علامہ نقوی نے مزید کہا کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ خواتین کو اپنے ان حقوق سے متعلق آگاہی ہی نہیں ہے، جو انھیں اسلام کی جانب سے دیئے گئے ہیں۔ایک طرف جہاں پنجاب کے تحفظ نسواں بل میں شوہروں اور رشتے داروں کے ہاتھوں تشدد کا شکار خواتین کی شکایات کا ازالہ تجویز کیا گیا تھا، اسلامی نظریاتی کونسل کے بل میں خواتین پر تشدد کرنے والے مردوں کو سزا دینے کے حوالے سے کوئی دفعات شامل نہیں ہیں، بلکہ سی آئی آئی نے اسے ‘مسئلہ’ ماننے سے ہی انکار کردیا ہے۔سی آئی آئی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کے دوران چیئرمین مولانا شیرانی نے اْن چند سزاؤں کی وضاحت کی، جو اْن خواتین کو دی جاسکیں گی جو شریعت کے تحت دی گئی اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کرتیں۔مولانا شیرانی کا کہنا تھا، ‘اگر نظم و ضبط کی ضرورت نہ ہو تو کوئی بھی مرد اپنی بیوی پر تشدد نہیں کرسکتا، یا پھر وہ اپنی بیوی سے اس وقت تک علیحدگی اختیار کرلے جب تک وہ اپنی اصلاح نہ کرلے۔’ان کا کہنا تھا کہ اسلام نے خواتین کو بہت سے حقوق دیئے ہیں اور خواتین کو معاشرے میں سرگرم کردار ادا کرنے کی اجازت دی ہے۔مولانا شیرانی نے کہا کہ ‘اگر ضرورت ہو تو حکومت مردوں کو جبری مشقت پر مجبور کرسکتی ہے لیکن خواتین کو اس بات پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی خاتون اسلام ترک کرتی ہے تو اسے مردوں کی طرح سزائے موت نہیں دی جاسکتی، خواتین اپنی جائیداد کی مالک ہوسکتی ہیں اور مذہبی اقدار پر عمل کرتے ہوئے ملازمت کرسکتی ہیں۔’جب ان سے شوہروں کی جانب سے بیویوں پر تشدد کے کیسز کے حوالے سے پوچھا گیا تو مولانا شیرانی نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو خواتین کو مارے پیٹے۔ان کا کہنا تھا کہ’ہمارے قبائلی کلچر میں اگر لڑائی کے دوران سامنے سے کوئی خاتون آجائے تو فائرنگ روک دی جاتی ہے۔ اگر ایسا کوئی کیس ہے بھی تو حکومت کو سب سے پہلے آگاہی بیدار کرنی چاہیے، بجائے اس کے سخت قوانین بنائے جائیں۔
کو نسا کا م پا کستانی کبھی نہیں کر سکتے ، جا نئے کس نے کہا
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
-
بڑی خوشخبری، اقامہ فیس ختم کرنے کی منظوری
-
پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کا پاکستان پیپلزپارٹی میں شمولیت کا اعلان
-
جیل سے آنے کے بعد پہلے وی لاگ سے کتنی کمائی ہوئی؟ ڈکی بھائی کا ہوشربا انکشاف
-
ملازمین کی تنخواہوں، ہاؤس رینٹ اور پنشن میں اضافے کی منظوری
-
آسٹریلیا کا غیر ملکیوں کے ویزے بارے بڑا اعلان
-
اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ کی نئی خفیہ تفصیلات آگئیں
-
وفاقی سرکاری تعلیمی اداروں میں موسم سرما کی چھٹیوں کا اعلان
-
ایران میں سمندر کا پانی اچانک سرخ ہوگیا
-
بھارتی اداکارہ کی نازیبا تصاویر وائرل، پولیس میں شکایت درج کروادی
-
سعودی عرب کا غیر ملکی ملازمین سے متعلق بڑا فیصلہ
-
پاکستانی سینما میں انقلاب، نئی فلم دی نیکسٹ صلاح الدین نے تاریخ بدل دی
-
تنخواہ دار طبقے کےلیے بڑی خوشخبری
-
معروف اداکارہ کے ساتھ سرعام بدسلوکی، ویڈیو وائرل
-
سیف علی خان کا کرینہ کپور کے ساتھ تعلقات میں عدم تحفظ کا انکشاف















































