جمعہ‬‮ ، 28 مارچ‬‮ 2025 

حملہ آوروں نے پہلا فائر کس پر کیا،کیا کہہ رہے تھے؟ یونیورسٹی میں قتل عام کی اند رونی کہانی طلبہ کی زبانی

datetime 21  جنوری‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

چار سدہ (نیوزڈیسک)یونیورسٹی کے نوجوان طالب عملوں میں سے بہت سے ایسے تھے جنھوں نے بالائی منزل سے چھلانگ لگا کر اپنی جان بچائی اور زخمی ہوگئے۔ چند ایسے تھے جو پشاور سکول کے بچوں کی مانند کلاسوں میں موجود میزوں کے نیچے یا پھر اپنے کمروں میں چھپ گئے۔چند عینی شاہدین نے حملے کے بعد باچا خان یونیورسٹی کے باہر موجود میڈیا سے گفتگو کی۔ایک طالب علم نے بتایا کہ حملہ آوروں نے پہلا فائر سکیورٹی اہلکاروں پر کیا اور اس وقت وہ خود بھی قریب ہی موجود تھے۔ہم نے کہا بھاگو یار یہ تو دہشت گرد آ گئے ہیں۔ پھر بس پتہ نہیںہم نے کچھ نہیں دیکھا ہم نے ان کے قدموں کی آوازیں سنیں اور نعرہ تکبیر اللہ اکبر کے جو وہ نعرے لگا رہے تھے وہ بھی سنے۔ایک سپرنٹنڈنٹ اور ایک دوسرا لڑکا تھاہم میز کے نیچے چھپ گئے۔یونیوسٹی میں موجود ایک دوسرے عینی شاہد نے بھی دہشت گردوں کو فائرنگ کرتے دیکھا۔ بقول ان کے وہ بہت ماہرانہ انداز میں فائرنگ کر رہے تھے۔ہم جیسے ہی یونیوسٹی میں داخل ہوئے یونیوسٹی کے داہنی طرف سے چار افراد فائرنگ کرتے ہوئے ہماری طرف آئے۔ پھر اندر موجود سکیورٹی اہلکاروں نے بھی ان پر فائرنگ کی۔ جب وہ آخری عمارت میں چلے گئے تو ہم آفس گئے اور وہیں بیٹھ گئے بہت زیادہ فائرنگ ہو رہی تھی۔طالب علموں کا کہنا ہے کہ فائرنگ کی آوازوں نے وہاں موجود افراد کو انتہائی خوفزدہ کر دیا تھاحملے کی صورت حال کے بارے میں بتاتے ہوئے ایک طالب کا کہنا تھا کہ میرا دوست اتنا خوفزدہ ہوا کہ وہ یونیورسٹی کی عمارت سے کود کیا۔ ہم نے دیکھا کہ دہشت گرد یہاں تکبیر کے نعرے لگا رہے تھے۔کچھ طلبہ کا کہنا تھا کہ پہلے تو انھیں لگا کہ یونیوسٹی میں کوئی جھگڑا ہو گیا ہے مگر پھر گولیوں کی مسلسل آوازوں سے انھیں حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوایونیورسٹی کے عقبی حصے سے فائرنگ کی آوازیں آئیں ہم نے کہا کسی کا جھگڑا ہوا ہے۔ مگر جب فائرنگ زیادہ ہو گئی تو ہم نے سارے لڑکوں کو کہا کہ وہ کمروں سے باہر نہ نکلیں۔ ہماری یونیورسٹی کے سکیورٹی والوں اور پاکستان آرمی نے ان کا بھرپور مقابلہ کیا۔عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ انھوں نے دہشت گردوں کو یونیورسٹی کی چھت سے فائرنگ کرتے دیکھا اور دھماکوں کی آوازیں سنیں۔میں نے خود تین دہشت گردوں کو دیکھا۔ ایک چھت سے فائرنگ کر رہا تھا۔ ایک ہاسٹل نمبر ون کے پاس تھامیں نے یونیورسٹی کے چار زخمی سکیورٹی گارڈوں کو دیکھا اور انھیں اٹھایا اور ایمبولینسوں میں ڈالا۔ تقریباً دو دھماکے میں نے خود سنے، وہ ہاسٹل نمبر ایک کی طرف ہوئے۔ پتہ نہیں خودکش تھے ¾گرینیڈ تھے یا کیا تھا مگر میں نے وہاں سے دھواں اٹھتا دیکھا۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



فنگر پرنٹس کی کہانی۔۔ محسن نقوی کے لیے


میرے والد انتقال سے قبل اپنے گائوں میں 17 کنال…

نارمل معاشرے کا متلاشی پاکستان

’’اوئے پنڈی وال‘ کدھر جل سیں‘‘ میں نے گھبرا…

آپ کی امداد کے مستحق دو مزید ادارے

یہ2006ء کی انگلینڈ کی ایک سرد شام تھی‘پارک میںایک…

بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے (دوسرا حصہ)

بلوچستان کے موجودہ حالات سمجھنے کے لیے ہمیں 1971ء…

بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟ (پہلا حصہ)

قیام پاکستان کے وقت بلوچستان پانچ آزاد ریاستوں…

اچھی زندگی

’’چلیں آپ بیڈ پر لیٹ جائیں‘ انجیکشن کا وقت ہو…

سنبھلنے کے علاوہ

’’میں خانہ کعبہ کے سامنے کھڑا تھا اور وہ مجھے…

ہم سیاحت کیسے بڑھا سکتے ہیں؟

میرے پاس چند دن قبل ازبکستان کے سفیر اپنے سٹاف…

تیسری عالمی جنگ تیار(دوسرا حصہ)

ولادی میر زیلنسکی کی بدتمیزی کی دوسری وجہ اس…

تیسری عالمی جنگ تیار

سرونٹ آف دی پیپل کا پہلا سیزن 2015ء میں یوکرائن…

آپ کی تھوڑی سی مہربانی

اسٹیوجابز کے نام سے آپ واقف ہیں ‘ دنیا میں جہاں…