مکہ مکرمہ (نیوزڈیسک)سعودی عرب میں مقیم غیر ملکی تارکینِ وطن کی تعداد اور وہاں مختلف پیشوں سے وابستہ نمایاں غیرملکیوں کے حوالے سے بالعموم غلط فہمی پائی جاتی ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس وقت وہاں فلپائنی اور بنگلہ دیشی کم اجرتوں پر کام کی وجہ سے چھائے ہوئے ہیں لیکن اعداد و شمار اس غلط تصور کی تردید کرتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب میں پاکستانی تارکین وطن کی دوسرے ممالک کے شہریوں کے مقابلے میں تعداد سب سے زیادہ ہے اور وہ مختلف شعبوں میں چھائے ہوئے ہیں۔عرب روزنامے کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب میں مقیم چھبیس ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا قریبا نوّے پیشوں پر مکمل کنٹرول ہے۔یہ سروے سعودی میڈیکل سنٹر برائے مشاورت اور مطالعہ (ایس ایم سی) نے کیا ہے۔اس کے نتائج کے مطابق سعودی شہری اس فہرست میں سب سے آخر میں آتے ہیں اور وہ صرف نو پیشوں سے وابستہ ہیں۔سعودی شہری تدریس اور حفظ قرآن کے شعبے سے وابستہ ہیں۔وہ مساجد میں پیش امام ہیں،مو¿ذن ہیں،تجارتی بنکوں میں فرنٹ ڈیسک افسر کے طور پر کام کررہے ہیں۔سرکاری بسوں اور بھاری ٹرکوں کے ڈرائیور ہیں،تعلیمی اداروں کی بسیں چلاتے ہیں ،کاروں کی نیلامی کے ڈیلر ہیں اور سکیورٹی محافظ ہیں۔اس سروے کے نتائج کے مطابق نوممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا نجی شعبے کی ستر فی صد ملازمتوں پر کنٹرول ہے۔ان ممالک میں پاکستان سرفہرست ہے۔اس کے بعد یمن ،مصر ،بھارت ،بنگلہ دیش ،اردن ،فلسطین ،سوڈان اور شام کا بالترتیب نمبر آتا ہے۔سروے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان ،یمن ،مصر اور بھارت سے تعلق رکھنے والے تارکین کی بڑی اکثریت مزدور پیشہ ہے اور لیبر مارکیٹ میں ان ممالک کے درمیان سخت مقابلہ ہے۔اس میں یہ بھی نوٹ کیا گیا ہے کہ سعودی ”بخاری رائس ریستورانوں” میں کھانے کے لیے جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔یہ ریستوراں ترکمانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن چلا رہے ہیں۔دوسری جانب یمنی ان مشہور ریستورانوں میں کام کرتے ہیں جہاں تلا ہو جگر فروخت کیا جاتا ہے اور سعودی اس کو ناشتے میں شوق سے کھاتے ہیں۔