دبئی(نیوز ڈیسک) وزیراعظم نوازشریف اور پاکستان کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ گزشتہ رو ز اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں ایک ہی موقف پر نظر آئے جب کہ سندھ حکومت تنہا نظر لیکن مشتبہ افراد کو قصور وار ثابت کرنے کی ذمہ داری اب بھی وزیراعلی سندھ قائم علی شاہ کی قانونی ٹیم پر ہوتی ہے۔ جیسے ہی بنیادی طور پر ایک دوسرے سے جڑی پیشرفت سامنے آئیں تو یہ واضح ہو گیا کہ حکومت اور عسکری قیادت ایک دوسے سے محاز آزرائی نہیں چاہتے اور اسٹیبلشمنٹ نے بھی واضح کر دیا کہ وہ دہشت گردوں اور ان کے مالی معاونین کے خلاف آپریشن میں سستی لانے یا اسے روکنے کے لئے کسی سیاسی دباو میں نہیں آئے گی۔ یہ دو پیش رفت اپیکس کمیٹی میں یکساں سوچ کے ساتھ سامنے آئیں ہیں حالانکہ اس دواران سندھ حکومت کی جانب سے خاموش احتجاج بھی کیا گیا۔ اور مزاحمت بھی کی گئی۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ڈاکٹر عاصم حیسن پھٹ پڑے کہ انہیں رینجرز قربانی کا بکرا بنا رہی ہے۔ ڈاکٹر عاصم حسین نے اپنے بیان میں کہا کہ اسٹیبلشمنٹ کا جھگڑا اعلی قیادت کے ساتھ لیکن انہیں قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کسی بھی ملزم کی جانب سے الزامات کی تردید کرنا اور گرفتار فورس پر الزامات عائد کرنا معمول کی بات ہے اور قانونی حق ہے کیوں کہ اب استغاثہ کو شواہد پیش کرنا ہوں گے اور عدالت کے روبرو لگائے گئے الزامات کو ثابت کرنا ہو گا، ڈاکٹر عاصم نے دلچسپ بیان دیا ہے کہ وہ پولیس کی حفاظت میں محفوظ رہیں گی رینجرز کی نہیں اس سے قانونی اور ایگزیکٹو شاخ پولیس اور استغاثہ پر شکوک و شبہات پیدا ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا ان پر کسی طرح کا گرفتاری کے دوران تشدد نہیں کیا گیا لیکن انہیں طوطے کی طرح بولنے کا کہا گیا اور سلطانی گواہ بننے کا کہا گیا جو انہوں نے بننے سے انکار کر دیا۔ واضح رہے کہ کچھ دن قبل سندھ حکومت اپیکس کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں رینجرز کورکماندر کراچی ڈی جی ریجنرز اور وزیر اعلی سندھ بھی موجود تھے جس میں پراسیکیوشن کو مضبوط بنانے اور دو سو نئے سرکاری وکیل رینجرز کے ماتحت کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اگر اپیکس کمیٹی کے اس فیصلے پر عمل ہوا تو پراسیکیوشن کے لئے سندھ حکومت کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اور آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانے کی راہ میں رکاوٹ بھی دور ہو جائے گی۔ اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں ایک موقع پر وزیراعظم پریشان نظر آئے جب وفاقی حکومت کی طرف سے الٹی میٹم دیا گیا تھا کہ اگر چھ سے سات گھنٹوں میں رینجرز کو اختیارات نہ دیئے گئے تو اسلام آباد خود کارروائی کرے گا اور اس بات نے شاید کام دکھایا اور وزیراعلی سندھ قائم علی شاہ پر دبا? پڑا کہ کشیدگی کو مزید نہ بڑھایا جائے۔ اپیکس کمیٹی میں اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ کراچی آپریشن کسی طور پر بھی بند نہیں ہو گا اور اسی رفتار سے جاری رہے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے طے کر لیا ہے کہ سندھ حکومت کی مزاحمت اور باہر سے دھونس دھمکیوں کے باوجود آپریشن کی رفتار سست نہیں کی جائے گی۔ اگر ایسا ہوا تو کراچی میں ایم کیو ایم کو ملنے والا مینڈیٹ بھی اس صور ت میں رکاوٹ بن سکتاہے۔ اگر ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر آپریشن کی رفتار کم کرنے کی کوششیں کرے۔ اس صورتحال میں جو منظر نامہ نظر آرہا ہے وہ یہ اہے کہ ایک طرف کھیل میں نواز لیگ اور فوج ہو گی دوسری جانب پی پی پی اور ایم کیو ایم ہو گی لیکن کچھ بھی ہو نقصان کراچی کا ہی ہو گا۔