کراچی(نیوزڈیسک) انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کے منتظم جج جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو کی عدالت میں ڈاکٹر عاصم حسین کو پیش کرنے کے لئے پولیس انہیں ہائیکورٹ لے کر ا?ئی۔ سماعت شروع ہوئی تو تفتیشی افسر نے عدالت سے استدعا کی کہ ڈاکٹر عاصم نے دہشت گردوں کے علاج کا اعتراف کیا ہے۔ ان سے مزید تفتیش کے لئے پانچ روز کا ریمانڈ دیا جائے۔ نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے ڈاکٹر عاصم کی تحویل کے لئے درخواست انسداد دہشت گردی کی عدالت میں جمع کرا دی جس میں کہا گیا کہ ڈاکٹر عاصم کے خلاف کرپشن کا الزام ہے۔ تفتیش کے لئے نیب کے حوالے کیا جائے۔ جبکہ دوسری جانب ڈاکٹر عاصم کے وکیل عامر رضا نے موقف اختیار کیا کہ ڈاکٹر عاصم کو نیب کے حوالے کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ڈاکٹر عاصم کو 90 روز کی تحویل میں رکھا گیا۔ دوبارہ 90 روز کی تحویل میں دینا خلاف قانون ہے۔ نیب نے اپنی درخواست کے ساتھ ڈاکٹر عاصم کے خلاف کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔ نیب کی دفعہ 24 کے تحت ڈاکٹر عاصم کو بغیر ثبوت کے نیب تحویل میں نہیں لے سکتی ہے۔ سماعت کے دوران ڈاکٹر عاصم حسین نے عدالت سے اپنا بیان چیمبر میں ریکارڈ کرنے کی درخواست کی۔ عدالت نے کہا کہ بیان اوپن کورٹ میں ہوگا۔ ڈاکٹر عاصم نے اپنے بیان میں کہا کہ مجھے تفتیشی افسر نے نہیں مارا۔ میرے ساتھ جو ہوا وہ الگ کہانی ہے۔ انہوں نے بیان میں کہا کہ میں نے کسی دہشت گرد کا علاج نہیں کیا۔ میری زندگی کو خطرہ ہے۔ مجھے میرے ہی ہسپتال سے ہتھکڑی لگا کر لے جایا گیا۔ مجھ پر بنایا گیا مقدمہ جھوٹا ہے۔ جھگڑا کسی اور کا ہے۔ مجھے مارنا ہے تو مار کر ختم کریں۔ مجھے پھنسایا جا رہا ہے۔ میں مرا تو ان کے ٹارچر سے مروں گا۔ ایک میڈیکل سپریٹینڈنٹ کے بیان پر مجھے پھنسایا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کبھی ڈرایا جاتا ہے، کبھی لالی پوپ دیا جاتا ہے۔ مجھ پر تشدد کیا جاتا ہے تا کہ میں طوطے کی طرح بولوں۔ انہوں نے عدالت سے کہا کہ آپ انصاف کی کرسی پر ہیں، میرے ساتھ انصاف کریں۔ میں نے کوئی اعتراف جرم نہیں کیا۔ بیان کے بعد عدالت نے ڈاکٹر عاصم کا پانچ روز کا ریمانڈ دے دیا اور حکم دیا کہ ڈاکٹر عاصم سے قانون کے مطابق تفتیش کی جائے۔ ڈاکٹر عاصم کی بیٹی نے حلف نامہ عدالت میں داخل کرایا جس میں کہا گیا کہ میرے والد کی جان کو خطرہ ہے۔عدالت نے ڈاکٹر عاصم کے بیان اور بیٹی کے حلف نامے کو ریکارڈ کا حصہ بنا لیا۔