کوئٹہ (نیوزڈیسک ) وفاقی وزیر سیفران جنرل ( ر ) عبدالقادر بلوچ نے کہاہے کہ مری معاہدہ ایک حقیقت ہے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ،محمود خان اچکزئی بھی اس معاہدے کو مانتے ہیں 4دسمبر کو اس کی مدد پوری ہوچکی ہے اس پر عملدرآمد ہونا چاہئے اب تک نہیںہوا مجھے معلوم نہیں ایسا کیوں ہوا ہے ۔انہوںنے یہ بات اتوار کو سرینا ہوٹل میں صحافیوںسے بات چیت کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر پاکستان جرمن کے سفیر ڈاکٹر مس اینا لیپا اور unhcrکے پاکستان میں چیف اندریکا ریٹویٹ بھی موجود تھے ۔انہوںنے ایک سوال کے جواب میںکہاکہ افغان مہاجرین ایک قانون کے معاہدے کے تحت پاکستان میں رہ رہے ہیںاگر کوئی دہشتگردی میں ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف قانون کے مطابق سزاد ی جائیگی ۔انہوںنے کہاکہ پاکستان میں داعش کی موجودگی سے انکار نہیںکیا جا سکتا ہے ۔انہوںنے کہاکہ افغانستان میں صورتحال بہتر نہیںہے اسلئے وہ واپس نہیںجاسکے۔ پاکستان میںجو افغان مہاجرین رجسٹر ڈ ہیں ان میں بلوچستان میںکی تعداد 20 لاکھ 81ہزار سے زیادہ ہیں حقیقت مین یہ تعداد اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے ۔انہوںنے کہاکہ 600ملین ڈالر کا پروگرام جو unrcکے زریعے خرچ کیاجاتاہے اس میں 175ملین ڈالر خرچ کیے گئے باقی 50ملین ڈالر بلوچستان میں خرچ کئے گئے ہیں۔انہوںنے کہاکہ افغان مہاجرین کی موجو دگی کی وجہ سے پاکستان کو اب تک ایک ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے ۔41ہزار کیمپوں میں سے کئی کیمپوںکو بند کردیا گیا ہے ( راہا ) پروگرام کے تحت افغانستان کے ساتھ بلوچستان کے جو علاقے لگتے ہیں ان میں شیرانی ، ژوب ، قلعہ سیف اللہ ، قلہع عبداللہ نوشکی ، چاغی کوئٹہ لورالائی ، علاقے متاثر ہو رہے ہیں اس موقع پر جنرل سفیر نے کہاکہ مہمان نواز ی مقامی لوگوںنے بھی کی ہے جس کی ہم شکر گزار ہیں ۔وفاقی وزیر نے کہاکہ افغان مہاجرین کی مدت 31دسمبر کو ختم ہو رہی ہے فی الحال میں اس میں توسیع کاکوئی فیصلہ نہیںکیا گیا ہے