کوئٹہ (نیوزڈیسک ) ممتاز قانون دان و سابق سینیٹر امان کنرانی نے کہا ہے مری معاہدے کی رو سے بلوچستان وزیراعلیٰ کی تبدیلی میں تاخیر کی صورت میں اگر کسی نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں عدالت میں چیلنج کیا تو اس پر دستخط کرنے والے صادق اور امین کے پیمانے اور آئین کے آرٹیکل 62/63 کے تحت نااہلی کے مقدمہ کا سامنا کرسکتے ہیں معاہدہ فریقوں کے درمیان فریقین کو باہمی طور پابند کرتا جب تک اس کی خلاف ورزی کی صورت میں اس کے مندرجات کےاندر تادیبی شق شامل نہ ہو اگرچہ اس پر عملدرآمد مطلق? ضروری نہیں اسی طرح قانون و آئین کے برعکس کوئی معاہدہ قابل عمل نہیں ہے البتہ اخلاقی ،سیاسی اور معاشرتی نقطہ نظر سے بڑی اہمیت کا حامل ہے اور کسی معاہدے پر عمل نہ کرنے والا عارضی فائدہ تو اٹھا سکتا ہے مگر معاشرے میں وہ اپنا اعتماد ہمیشہ کے لئے کھو دیتا ہے یوں وہ قول و فعل میں تضاد رکھنے والا مشہور ہوتا ہے حتی کہ لوگ خلاف ورزی والے کو دروغ زن سے تعبیر کرتے ہیں یہ بات انہوں نے اتوار کے زور این این ائی سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہی جب سے مری معاہدے کی قانونی و سیاسی اثرات پر انکی رائے پوچھی گی کے اس کی معاہدے کی قانونی طور حثیت کیا ہے تو انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں معاہدوں پر من و وعن عمل درامد کرنے کا اعزاز شہید نواب اکبر بگٹی کو حاصل ہے جس نے پشتون خواہ کے ساتھ ووٹوں کے تبادلے کا معاہدہ اس وقت کیا جب وہ بلوچستان اسمبلی میں اکثریت رکھتے تھے اور آئندہ واپسی کی شرط پر دو ووٹ سینٹ کے لئے حاصل کئے مگر بعد میں وہ اسمبلی توڑ دی گءاور کئی سال کے بعد کے انتخاب میں انہیں اکثریت حاصل بھی نہ تھی مگر اس کے باوجود انھوں نے از خود پشتون خواہ کو دو کے بدلے تین ووٹ لوٹا دئیے جبکہ پاکستان میں چارٹر ا±ف ڈیموکریسی پر لندن میں 2006 جولاءکے مہینے میں دو بڑی پارٹیوں سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے دستخط کئے مگر اس پر ایک لمحے عمل نہ ھوا تاہم صوبے اور وفاق کے اندر شراکت کے معاہدے ماضی میں بھی ھوئے ہیں انہوں نے کہاکہ سب سے پہلے 1989 میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی حکومت کے خاتمے کے لئے ایک اتحاد تشکیل دیا گیا اس وقت میاں نواز شریف پنجاب کے وزیراعلی تھے جس نے غلام مصطفی جتوئی مرحوم اور چوہدری شجاعت حسین ،محترمہ عابدہ حسین اور منظور گچکی کے ذریعے بلوچستان کے آئینی حقوق ،صوبائی خودمختاری کا ایک تحریری معاہدہ کیا گیا مگر انتخابات کے بعد اپنے اتحادی جماعت جے ڈبلیو پی سے انہوں نے وفا نہیں کی گئی اور شہید نواب بگٹی کو اکثریتی جماعت کے باوجود وزیراعلی نہیں بننے دیا گیا دوسرا معاہدہ فروری 1997 کے اندر بی این پی اور جے ڈبلیو پی کے درمیان دو اور تین سال کی مدت کے لئے شراکت اقتدار کو باہمی معاہدے کا حصہ بنایا گیا مگر فریقین کے درمیان مقررہ مدت سے قبل اختلافات اور بعد میں بی این پی کے اندرونی آزمائشی عمل اور پی ایم ایل این کی مہر بانیوں کی بنا پر انکی اپنی حکومت قائم نہ ہونے کے سبب معاہدے پر عمل درامد کا مرحلہ نہیں آسکا جس پر میاں محمد نواز شریف سردار اختر جان مینگل کی حکومت کے خاتمے کو اپنی غلطی کا اعلانیہ اعتراف کر چکے ہیں ایک معاہدہ پاکستان کی بڑی سیاسی،جمہوری اور مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کے درمیان 2007 میں ہوا جس میں پی ایم ایل سمیت تمام پارٹیوں نے عہد کیا کہ وہ جنرل پرویز مشرف کی موجودگی میں انتخابات میں حصہ نہیں لینگے مگر آخری لمحے مسلم لیگ ن نے اپنے عہد سے انحراف کرتے ھوئے انتخابات میں حصہ لیا مگر بلوچستان کی قوم پرست اور پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی 2008 کے انتخابی دنگل سے باہر رہ گئے انہوں نے کہا کہ ایک اور معاہدہ 2008 کو بھوربن میں پیپلز پارٹی اور پی ایم ایل این کے درمیان مخلوط حکومت اس شرط پر قائم کرنے پر اتفاق ہوا کہ اعلی عدلیہ کے ججوں کو بحال کردیا جائے گا مگر جب ایسا نہیں ہوا تو پی ایم ایل این مخلوط حکومت سے الگ ہوگی اب دیکھنا یہ ہے کہ فریقین اپنے اپنے ظرف کے مطابق شہید نواب بگٹی کے ایفا ئے عہد کے ماڈل کو اپناتے ہیں یامسلم لیگ ن اپنے ماضی کے دغاوں کی تاریخ کو دہراتے ہیں المیہ یہ ہے کہ پہلے بھی بلوچستان کے سادہ لوح اسکا شکار ہوئے آج بھی وہی متاثر ہونگے تاہم اس عمل میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو محتاط رہنا ہوگا کہیں میاں صاحب ماضی کی طرح اپنے گناہ انکے سر نہ ڈال دے جیسے 1990 میں نواب شہید سے بے وفائی کا ذمہ دار تاج جمالی مرحوم اور 1998 میں سردار اختر جان مینگل جان کو دھوکہ دینے کا ذمہ دار جان جمالی کو قرار دیا ت?ا 2007 میں تمام قوم پرست جماعتوں اور پی ٹی آئی اور مذہبی جماعتوں کو طرہ دینے کا ذمہ دار زرداری صاحب کو قرار دیا اب کے بار نواب ثنائ اللہ زہری کے ساتھ معاہدے کو عملی جامہ پہناننے میں انکو رکاوٹ نہ قرار دیا جائے انہوں نے کہاکہ ویسے حسن اتفاق ہے جب نواب بگٹی شہید اور بی این پی کے درمیان مسائل آئیے تب بھی حاصل بزنجو اس پارٹی کے اہم رہنمائ تھے آج جب نیشنل پارٹی اور نواب زہری اپنی صوبائی اسمبلی میں اکثریت کی دھائی دے رہے ہیں تب میر حاصل خان بزنجو پارٹی کے سربراہ ہے دیکھنا یہ ہے کہ کس تدبر،فھم و فراست سے معاملے کو سلجھاتے ہیں یا ماضی کی روش کو برقرار رکھتے ہیں ایک شاعر کے بقول فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم انھوں نے آخر میں خبردار کیا کہ کسی مرحلے میں کسی نے اس معاھدے کی خلاف ورزی کی صورت میں چیلنج کیا تو اس پر دستخط کرنے والے صادق اور امین کے پیمانے اور آئین کے آرٹیکلل 62/63 کے تحت نااہلی کے مقدمہ کا سامنا کرسکتے ہیں