اسلام آباد(نیوز ڈیسک)پچھلے پینتالیس سال میں پاکستان میں اب تک 10 عام انتخابات ہوچکے ہیں۔ ہر عام انتخاب میں امیدوار جیتنے کے لئے تن من دھن کی بازی لگاتے ہوئے الیکشن کمیشن کی مقرر کردہ رقم سے زائد ہی خرچ کرتے رہے ہیں۔مگر ضمنی انتخابات میں ہمیشہ جوش و خروش کم ہی ہوتا ہے اور امیدوار عموماً بہت زیادہ خرچ نہیں کرتے لیکن لاہور کے حلقے این اے 122 کے ضمنی انتخابات میں یہ روایت بری طرح ٹوٹتی نظر آ رہی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ 2013 کے انتخابات میں تحریک انصاف کے چیرمین اس حلقے میں امیدوار تھے۔اب عدالت کی طرف سے دوبارہ انتخابات کے حکم کے بعد سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق اور تحریک انصاف کے عبدالعلیم خان کے درمیان مقابلہ ہے۔ اس حلقے میں ووٹرز کی کل تعداد تو 3 لاکھ 47 ہزار ہے لیکن چند مربع میل پر مشتمل گنجان آباد حلقے میں ہر سڑک اور گلی میں قطار تر قطار لگے بینرز اور ھورڈنگز کی تعداد کئی گنا ہے.اشتہار بازی کی اس دوڑ میں سب سے زیادہ تختہ مشق میٹرو بس کا ٹریک ہوا ہے۔ پلرز پر میٹرو بس کے حامیوں اور مخالفین کے پوسٹرز بلاامتیاز نظر چسپاں کیے گئے ہیں۔ سڑکوں کے ڈیوائڈرز اور گرین بیلٹس بھی محفوظ نہیں رہے۔ پرنٹنگ صنعت سے منسلک افراد اس مہم سے سب سے زیادہ مستفید ہوئے ہیں۔ان کے مطابق اب تک 10 کروڑ سے زائد کی رقم صرف تشہیری مہم پر خرچ کی جاچکی ہے۔ 300 سے زائد قائم ہونے والے پارٹی دفاتر پر تو روزانہ کا خرچہ 5 لاکھ روپے کے قریب ہے، گھر گھر جانے کی مہم میں لوگوں کو موٹر سائکل سمیت تحفے تحائف دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے، ووٹوں کی نقد خریدوفروخت بھی زوروں پر ہے۔ گویا کہ ضمنی انتخابات کے بعد بڑے امیدواروں کو فتح یا ہار 30 سے 40 کروڑ روپے کی پڑے گی جو کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے مقرر کردہ حد سے 200 گنا زیادہ ہوگی۔اگر الیکشن کمیشن نے اپنے قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سنجیدہ کاروائی نہ کی تو چند ہفتوں بعد پنجاب میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں پانی کی طرح روپیہ بہانے والوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور اربوں روپیہ عوام کی فلاح و بہبود کی بجائے اللوں تللوں میں لگ جائے گا۔ جوئے کا اصول ہے، جو لگائے گا، اسی کو ملے گا۔ انتخاب جیتنے کے لئے حد سے زیادہ روپیہ پیسہ لگانے والا جیتنے کے بعد ترقیاتی کاموں کے ٹھیکوں اور دیگر ناجائز ذریعوں سے کمانے کی کوشش بھی کرے گا۔ اس طرح معاشرے میں رزق حلال کو فروغ دینے کی کوششوں کو دھچکا لگے گا اور تبدیلی کے لئے عوام کی جدوجہد بھی بری طرح متاثر ہوگی۔ مغربی جمہوری ممالک کی روایات کے برعکس پاکستان کے انتخابی نظام میں پارٹیوں کی بجائے افراد اپنی مرضی سے روپے پیسے کا استعمال کرتے ہوئے کسی بھی حد کو پار کرسکیں گے اور متوسط اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والا فرد تو انتخابات میں حصہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکے گا۔ یہی وقت ہے کہ برسر اقتدار اور حزب اختلاف کی سیاسی پارٹیاں اپنی صفوں میں ایسے عناصر کو پہنچانیں جو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر جیتنے کی کوشش بھی ہر جائز اور ناجائز طریقہ اپنا رہے ہیں۔ فوری طور پر معاملات درست نہ کیے گئے تو اگلے 5 سالوں میں یہ بگاڑ ایک روایت بن جائے گا۔ بقول شیخ سعدی شیرازی کے جب سوئی کے نکے کے برابر چشمہ ہو تو اسے بند کرنا آسان ہوتا ہے، جب بڑا ہوجائے تو ہاتھی جیسا جسم بھی اسے بند نہیں کرسکتا