اعجاز چوہدری ، لیاقت بلوچ ،فرید احمد پراچہ، جنرل (ر) جہانگیر کرامت، جنرل (ر) شفاعت اللہ خان سمیت دیگر معروف سیاسی و سماجی شخصیات نے شرکت کی ۔مانی شنکر نے کہا کہ جب بھی دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات تعطل کا شکار ہوئے تو سرحدوں پر صورتحال کشیدہ ہو جاتی ہے ۔اگر کسی ملک کے حالات خراب ہو ں گے تو اس کا اثر ہمسایہ ممالک پر بھی پڑے گا اس لیے پاکستان اور بھارت کو باہمی مسائل کی نوعیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آخر دو طرفہ تعلقات میں اتنا انجماد کیوں ہے۔پہلے پاکستان کہتا تھا کہ صرف مسئلہ کشمیر ہی وہ واحد معاملہ ہے کہ جس پر بات چیت شروع کر کے دوسرے مسائل کے حل کی طرف آیا جا سکتا ہے لیکن اب حالات اس نوعیت پر آگئے ہیں کہ بھارت کا موقف ہے کہ صرف دہشت گردی وہ واحد مسئلہ ہے کہ جس کا حل کشمیر سے بھی زیادہ ضروری ہے ۔ 2004سے 2007پاک بھارت تعلقات کا ایک سنہری دور تھا ہمیں اسی دور کی طرف واپس آنا ہے ۔ہمیں ایک دوسرے کے قریب آنے کی ضرورت ہے کیونکہ جب ہم قریب آتے ہیں تو سرحدوں پر جا ری کشیدگی بھی کم ہو جا تی ہے اور جب ہم دور جا تے ہیں تو سرحدوں پر کشیدگی کے معاملات میں اضافہ ہو جا تا ہے اس لیے مسلسل اور بلاتعطل مذاکرات بےحد ضروری ہیں ۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے خورشید محمود قصوری نے کہا کہ میں نے کتاب میں ان تمام معاملات پر روشنی ڈالی ہے جن پر وزرائے خارجہ بات کرنے سے گریز کرتے ہیں ، میں نے بطور وزیر خارجہ ہمیشہ پاکستان کے موقف کا دفاع کیا ۔ میرے عہدے پر ہونے کے دوران جو پاک بھارت تعلقات کی نوعیت تھی اس کو صرف تین لو گ جانتے تھے جن میں منموہن سنگھ ،پر ویز مشرف اور میں ۔میں آج بھی اس بات پر قائم ہو ں کہ اقوام متحدہ کی قرارداد سے مسئلہ کشمیر کو ایک قانونی تحفظ ضرور ملتا ہے لیکن یہ حل صر ف بات چیت کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے ،پاکستان اور بھارت اب تک پانچ جنگیں لڑ چکے ہیں اور پانچ مرتبہ جنگ کے قریب قریب پہنچ کر واپس آئے لیکن اس دوران نہ تو پاکستان کے سیاستدانوں نے اس باہمی اتفاق رائے کو توڑا اور نہ ہی پاکستان آرمی اس معاملے میں کوئی رکاوٹ بنی ۔پرویز مشر ف ایک اچھے فیصلہ ساز کے طورپر سامنے آئے ۔اگر موجودہ حالات میںبھی کردار ادا کرنے کودیا جائے تو تیار ہوں ۔نریندر مودی مسئلہ کشمیر کے معاملے پر کنفیوز ہیںوہ کچھ بھی کر لیں لیکن ان کو مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے واجپائی کے راستے پر واپس آنا پڑے گا۔