اسلام آباد (نیوز ڈیسک) عمران خان کو یہ معلوم ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے چار ارکان کو ہٹانے کیلئے حکومت اور نہ ہی چیف الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے، لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی چیف نے ایک مرتبہ پھر حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کمیشن کے ارکان کی برطرفی میں ان کا ساتھ دے۔ جنگ کے رپورٹرفخر درانی کے مطابق منگل کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے ایک مرتبہ پھر حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ الیکشن کمیشن کے ا رکان کو ہٹانے کیلئے ان کی حمایت کرے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ ہوئے تو وہ دوبارہ سڑکوں پر آئیں گے۔ پی ٹی آئی کے ماہرین قانون کو بھی معلوم ہے کہ الیکشن کمیشن کے ارکان اور چیف الیکشن کمشنر کو کس طرح ہٹایا جا سکتا ہے اور یہ طریقہ ویسا ہی ہے جو سپریم کورٹ کے ججوں کیلئے مقرر کردہ ہے یعنی سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے جس کا طریقہ کار آرٹیکل 209 میں بھی موجود ہے۔ چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن ارکان کو آئینی تحفظ دینے کا مقصد یہ تھا کہ وہ بلا خوف و خطر یا سیاسی دباﺅ میں آئے بغیر اپنا کام کریں۔ یہ آئینی ضمانت ہی ہے جس کی وجہ سے کسی حکومت کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ الیکشن کمیشن کے کسی رکن کو ہٹا سکے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ پیپلز پارٹی کے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے بھی کمیشن ارکان سے مستعفی ہونے کیلئے کہا ہے۔ لیکن یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ یہ پیپلز پارٹی ہی تھی جس نے اپنی حکومت گزشتہ کے دوران ان ارکان کو منتخب کیا تھا اور اس کیلئے اس وقت کی اپوزیشن یعنی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مشاورت کی گئی تھی۔ 2013ئ کے عام انتخابات ہارنے کے فوراً بعد پی ٹی آئی نے دھاندلی کے الزامات عائد کرنا شروع کر دیئے اور چار حلقوں کی بایومیٹرک تصدیق کا مطالبہ کیا؛ حالانکہ اسے معلوم تھا کہ حکومت ایسا نہیں کر سکتی اور الیکشن کمیشن بھی کچھ عرصہ کے بعد یہ چار حلقے نہیں کھول سکتی کیونکہ یہ کام صرف الیکشن ٹریبونلز کا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ جاری ہونے سے قبل پی ٹی آئی کی قیادت نے چیف الیکشن کمشنر جسٹس سردار محمد رضا سے ملاقات کی اور مطالبہ کیا کہ الیکشن کمیشن کے ارکان کو برطرف کیا جائے۔ لیکن چیف الیکشن کمشنر نے بھی پی ٹی آئی قیادت کو یہی جواب دیا کہ وہ ایسا کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ ممبران کو صرف آئینی طریقہ کار کے تحت ہی ہٹایا جا سکتا ہے۔ موجودہ ارکان کو جون 2011ءمیں 18ویں ترمیم کے تحت مقرر کیا گیا تھا اور وہ اپنے عہدوں کی 5 برس کی آئینی مدت 2016ءکے وسط میں مکمل کریں گے۔ اگرچہ چیف الیکشن کمشنر کمیشن کے چیئرمیں ہیں لیکن کمیشن کے ارکان کے اختیارات تقریباً مساوی ہیں۔ مثلاً آئین کے آرٹیکل 63 کی ذیلی شق 2 کے تحت اگر یہ سوال اٹھتا ہے کہ پارلیمنٹ کا کوئی رکن نا اہل ہو جاتا ہے تو قومی اسمبلی کے رکن کی صورت میں اسپیکر اور سینیٹ کی صورت میں چیئرمین یہ معاملہ 30 روز کے اندر الیکشن کمیشن کو بھجوانے کے پابند ہوں گے اور ایسا نہ کرنے کی صورت میں معاملہ از خود الیکشن کمیشن کو بھجوائے جانے کے مترادف سمجھا جائے گا تاکہ اس پر فیصلہ ہو سکے۔ صرف چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے ارکان آئینی طور پر سخت قوانین کے تحت مقرر کیے جاتے ہیں۔ صوبائی الیکشن کمشنرز کی نامزدگی کا طریقہ کار مختلف ہے۔ چیف الیکشن کمشنر الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سینئر عہدیداروں میں سے نامزد کرتے ہیں، جو سرکاری ملازمین ہوتے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے ارکان کے برعکس، صوبائی الیکشن کمیشن کے عہدیداروں کو آئینی تحفظ حاصل نہیں۔