کراچی(نیوزڈیسک)پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین سابق صدر آصف علی زرداری نے ایک پرائیویٹ چینل کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ جلد پاکستان واپس آئیں گے۔ ان دنوں وہ لندن میں اپنے معالج کے پاس چیک اپ کے لئے آئے ہوئے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ پیپلزپارٹی اور فوج کے درمیان تعلقات کس نہج پر ہیں، انہوں نے کہا کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو کبھی بھی چیلنج نہیں کیا، کبھی بھی اداروں کے خلاف بات نہیں کی اور ہمیشہ جرنیلوں کی سیاست کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں معلوم تھا کہ امریکہ اور ایران کے درمیان معاہدہ ہو جائے گا اس لئے پاک ایران گیس پائپ لائن کا معاہدہ کیا۔ اس حکومت کو اپنی پائپ لائن بنا لینی چاہیے تھی۔ ہمیں ایران اور افغانستان سے کوئی خطرہ نہیں۔ افغانستان میں بہت ساری قوتیں ہیں جن سے خطرات ہو سکتے ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ ملک کو اپنی سیاست پر فوقیت دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین سے اقتصادی تعاون کو انہوں نے دوبارہ بحال کیا۔ سیاستدان کا اثرونفوذ اقتدار کے بعد بھی قائم رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے حالات پر ہمیشہ ان کی نظر رہتی ہے۔ کراچی آپریشن پر انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں بشمول ایم کیو ایم سب کا اتفاق تھا۔ ایم کیو ایم کے خدشات پر انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کے ووٹ بینک کو تسلیم کرتے ہیں۔ ہم فوج کے ساتھ ہیں اور جب تک رہیں گے تب تک کوئی ماورائے آئین اقدام نہیں ہوگا۔ پاکستان کے لئے پیپلز پارٹی بہت بڑا پولیٹیکل کور ہے۔ ایک ہی وفاقی طاقت ہے۔ اس سوال پر کہ منظوروٹو جیالے نہیں ہیں، انہوں نے کہا کہ اس وقت اسمبلیوں میں ہر دوسرا رکن پیپلز پارٹی ہی سے آیا ہے۔ جب تک جمہوریت ہے پیپلز پارٹی کا اثر اور کردار باقی ہے۔ جمہوریت کو بعض سیاسی اداکار روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سیاست مثبت کام ہے خدمت کرنا ہے۔ میاں نواز شریف سے تعلقات کے بارے انہوں نے کہا کہ ان سے اچھے تعلقات ہیں۔ یہ لوگوں کی سوچ ہے کہ ہم فرینڈلی اپوزیشن ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ میاں صاحب کام کریں اور پانچویں سال ہم ان سے سیاسی میدان میں مقابلہ کریں گے اور اس وقت ہم جمہوریت کو مستحکم کررہے ہیں۔ جمہوریت کو آگے بڑھنا ہے۔ دھرنے کے دوران، میں وزیراعظم کے گھر گیا نواز شریف کے گھر نہیں گیا۔ ہم نے اس وقت جمہوریت کو بچانا ہے۔ عمران خان تیسرے امپائر کی بات کرتے تھے اور کوئی سمجھتا ہے کہ تیسراا مپائر تھا تو کمیشن بنا دیا جائے، اب ساری بحث فضول ہے۔ ہم نے کہا تھا کہ انتخابات میں خرابیاں تھیں اور کمیشن نے بھی یہی کہہ دیا تھا۔ فخرالدین جی ابراہیم کو کمیشن نے نہیں بلایا۔ ان کی ذمہ داری تھی انتخابات کرانا۔ انہوں نے کہاکہ بلاول بھٹو زرداری ذمہ داریاں لے کر آگے بڑھے گا۔ بلاول کے موقف میں جوانی زیادہ ہے، میرے موقف میں تجربہ زیادہ ہے۔ کوشش کروں گاکہ extreme پوزیشن نہ لوں۔ اگر میں خود صدر نہ بنتا تو پانچ سال پورے نہ ہوتے، اٹھارہویںاور اکیسویںترمیم نہ ہوتیں۔ چین سے اقتصادی تعاون مستحکم نہ ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ایک سیاسی چیف جسٹس ہمارے خلاف تھا اور اب اس کے سیاسی عزائم سامنے آگئے ہیں۔ اسٹاک ایکسچینج پر ٹیکس نہیں ہونا چاہیے۔ زمینداروں کو سہولیات دینی چاہئیں۔ چین سے ہونے والے معاہدے ہمارے دور میں سائن ہوئے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پیپلز پارٹی کے روٹی کپڑا مکان ہی کی تعبیر تھی۔ پیداوار ایکسپورٹ کے لئے بھی ہونی چاہیے۔ ٹیکسٹائل ہی ایکسپورٹ کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ بزنس کے سرپراحتساب بیٹھ جائے گا تو بزنس بیٹھ جائے گا۔ پاکستان کی ایکسپورٹ 70بلین ڈالر سے زائد ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں امن و امان کا مسئلہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے حل کیا۔ آج تھر میں بھی بجلی ہے، پینے کا پانی ہے، آہستہ آہستہ چیزیں بہتری کی طرف جا رہی ہیں۔ پولیس کا کردار امن وامان کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ بہت متحرک سیاستدان ہیں۔ پاکستان میں سکیورٹی سب سے اہم مسئلہ ہے۔ اگر ملک کی سرحدیں پر امن ہو جائیں تو پاکستان فلاحی ریاست بن جائے گا۔