اسلام آباد(نیوز ڈیسک)پیپلزپارٹی کی رہنماءشرمیلا فاروقی نے بتایاکہ شادی سے چار سال قبل اپنے خاوند سے پہلی ملاقات ہوئی تھی ، دونوں میں اکثر رابطہ رہتاتھا ، جب ہشام نے پروپوز کیا تو جان بوجھ کر فوری طورپر جواب نہیں دیا، منگنی پر کالا لباس پہننے کا مطلب سوگ نہیں تھا، کوئی رنگ ایسانہیں ہوتاکہ جوخوشیوں کو غم میں بدلے ، دونوں ہی ہر چیز کو ایک نظر سے دیکھتے ہیں اور کبھی اپنے شوہر کا موبائل فون چیک نہیں کیا۔ایک قومی اخبار کواپنے ایک انٹرویو میں شرمیلا فاروقی نے بتایاکہ ہشام سے پہلی ملاقات چار برس قبل بلاول ہاﺅس کراچی میں ہوئی۔ میرے اور ان کے کام کی نوعیت ایسی تھی کہ ہمارا ایک دوسرے سے رابطہ رہتا تھا۔ ہشام نے پہلی ملاقات کے تقریباً بیس دن کے بعد مجھے پروپوز کیا میرا ری ایکشن مثبت ہی تھا لیکن میں نے فوری طور پر ہاں نہیں کہی کیونکہ مجھے اپنے گھر والوں کو بھی بتانا تھا ان سے معاملات طے کرنے تھے۔ اپنی منگنی کے موقع پر کالا لباس زیب تن کرنے کے حوالے سے بھی شرمیلا کافی دن خبروں میں رہیں جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ میں اس تاثر کی نفی کرنا چاہتی تھی کہ خوشی کے تہوار پر کالا رنگ پننے سے خوشیوں کو نذر لگ جاتی ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ تمام رنگ خوبصورت ہیں کوئی رنگ ایسا نہیں ہوتا جو خوشیوں کو غم میں بدل دے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہشام اور میں ایک ڈائریکشن میں چیزوں کو دیکھتے ہیں، ایک دوسرے کے معاملات میں بے جا دخل اندازی نہیں کرتے۔ ایک دوسرے کی پسند ناپسند کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ کھانے پینے، لباس اور رنگ کی چوائس بھی ایک جیسی ہے۔ شرمیلا فاروقی نے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ نہ میں روایتی لڑکی ہوں اور نہ ہی روایتی بیوی بننا پسند کرتی ہوں۔ میں سمجھتی ہوں کہ ہر انسان کی اپنی زندگی ہوتی ہے آپ سے ملنے سے پہلے بھی تو آخر وہ زندگی گزار ہی رہا ہوتا ہے ناں تو پھر بے جا پابندیاں لگانے سے کیا حاصل ہوگا۔ میں نے کبھی ہشام کا موبائل چیک نہیں کیا۔ مجھے یہ تک نہیں معلوم کے اس کے فیس بک اکاﺅنٹ میں کون کون ایڈ ہے۔ مجھے ایسی چھوٹی چھوٹی حرکتیں کرنا پسند نہیں انسان کو اپنے پیار پر یقین ہونا چاہیے۔ شادی کا مقصد ایک دوسرے کو پنجرے میں قید کرنا نہیں ہوتا۔ جو انسان جیسا ہو ویسا ہی اسے اپنائیں اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں کیونکہ بعض اوقات ایسی کوششیں رشتوں میں دراڑ کا باعث بن جاتی ہے۔