اسلام آباد(نیوزڈیسک) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت میں انکشاف ہوا ہے کہ مشہور زمانہ این آئی سی ایل سکینڈل میں چوہدری مونس الٰہی سے تاحال 42 کروڑ روپے کی وصولی نہیں ہوسکی ، ملزم کی جانب سے جمع کرائے گئے بنک چیک باﺅنس ہوچکے ہیں ، کمیٹی رکن سینیٹر الیاس بلور نے کہاکہ پاکستان میں درآمد ہونیوالا اسلحہ طالبان کے پاس چلا جاتا ہے لہٰذا جب تک آرمز کنٹرول پالیسی پر عملدرآمد نہیں ہوتا تمام آرمز امپورٹ و سیل لائسنس منسوخ کیے جائیں ،قائمہ کمیٹی نے وزارت تجارت کو ہدایت کی کہ آرمز کنٹرول پالیسی کے حوالے سے جاری شدہ ایس آر او پر جب تک عملدرآمد نہیں ہوتا تمام آرمز امپورٹ و سیل لائسنس منسوخ کیے جائیں جبکہ پی وی سی کی درآمد پر قدغن لگانے کےلئے جاری کیے گئے ایس آر او نمبر 149 بارے تفصیلات فراہم کی جائیں ، سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ وزارت تجارت نے اینگرو کیمیکلز سے رشوت لیکر مذکورہ ایس آر او جاری کیا ۔ بدھ کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کا اجلاس چیئرمین سینیٹر شبلی فراز کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاﺅس میں منعقد ہوا جس میں سیکرٹری ارباب شہزاد و دیگر حکام نے وزارت تجارت و متعلقہ اداروں بارے ارکان کو تفصیلی بریفنگ دی ۔ ڈی جی تریڈ آرگنائزیشن اتھارٹی نے اپنی بریفنگ میں بتایا کہ فاٹا چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری ختم کرکے اب ہر ایجنسی کی سطح پر یعنی سات چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری بنائے گئے ہیں جس پر سینیٹر الیاس بلور نے اعتراض اٹھایا کہ فیڈریشن آف چیمبر آف کامرس اینڈسٹری میں نائب صدر کے چار عہدے ہیں جبکہ ہر صوبائی چیمبر کا صدر فیڈریشن کا نائب صدر بنتا ہے ، کیا اب ساتوں ایجنسیوں کے چیمبرز کے صدور کو فیڈریشن آف چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر بنایا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا چیمبرز کو آر او کشمیر اور اسلام آباد کے ساتھ شامل کیا جائے ۔ نیز نیشنل انشورنس کمپنی لمیٹڈ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر سعید اسلم راجہ نے بتایا کہ مشہور زمانہ این آئی سی ایل سکینڈل میں تین جائیداد ( ایک کراچی اور دو لاہور ) میں مہنگے داموں خریدی گئی تھیں جبکہ عدالت نے مذکورہ جائیدادوں کے سودے منسوخ کردیئے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ مذکورہ سکینڈل کی ایک ارب 68 کروڑ 30 لاکھ روپے یعنی 84 فیصد رقم واپس مل چکی ہے البتہ لاہور ائیرپورٹ کے قریب خریدی گئی ، زمین جس میں چوہدری مونس الٰہی ملوث تھے اس کے 50 کروڑ روپے مین صرف 8 کروڑ روپے وصول ہوئے ۔ ملزمان نے 42 کروڑ روپے کے چیک دیئے جو کہ باﺅنس ہوگئے ۔ دوران اجلاس قائمہ کمیٹی کے رکن سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ وزارت تجارت نے آرمز کنٹرول پالیسی کے حوالے سے ایک ایس آر او جاری کیا تھا مگر آج تک اس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا ۔ وزیر تجارت سے پوچھیں تو وہ کہتے ہیں کہ وزارت تجارت کی تمام کمیٹیوں کے سربراہ وزیر خزانہ ہیں ، اس پر سیکرٹری تجارت ارباب شہزاد نے کہا کہا اس حوالے سے درآمد کنندگان کی درجہ بندی کی جارہی ہے ، آرمز کنٹرول پالیسی پر 30 جون تک عملدرآمد شروع ہو جائے گا ۔ اس پر سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ پاکستان میں جتنا بھی اسلحہ درآمد ہوتا ہے وہ طالبان کے پاس چلا جاتا ہے لہٰذا جب تک آرمز کنٹرول پالیسی پر عملدرآمد نہیں ہوتا تمام آرمز امپورٹ و سیل لائسنس منسوخ کیے جائیں ، علاوہ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر کامل علی آغا نے نکتہ اٹھایا کہ وزارت تجارت 19 فروری 2015ءکو ایس آر او نمبر 149 جاری کر کے پی وی سی کی درآمد کےلئے سرٹیفیکیٹ ضروری قرار دیکر چھوٹے کاروبار کو تباہ کردیا ہے حالانکہ پی وی سی کا شمار خطرناک اشیاءمیں نہیں ہوتا ۔ انہوں نے کہا کہ وزارت تجارت نے اینگرو کیمیکلز سے رشوت لیکر مذکورہ ایس آر او جاری کیا کیونکہ پاکستان میں واحد اینگرو کیمیکلز پرائیویٹ لمیٹڈ ہے جو پی وی سی پاﺅڈر بناتی ہے ۔ قائمہ کمیتی نے سیکرٹری تجارت کو ہدایت کی کہ مذکورہ ایس آر او بارے رپورٹ پیش کریں ۔ علاوہ ازیں قائمہ کمیٹی نے اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی آرڈیننس 2015ءکا بھی جائزہ لیا