ہم نہ ہی کوئی فیصلہ دے سکتے ہیں اور نہ ہی دینا چاہیے۔ پاکستانی صحافیوں کو تحقیقاتی خبروں کے معاملے میں اکثر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، یہاں تک کہ اگرمالیاتی اسکینڈل اور مشکوک کے بارے میں ہی کیوں نہ ہوں۔ ہمارے تمام وسائل اور افرادی قوت کے باوجود بمشکل ہی کوئی ’ تحقیقاتی ڈیسک‘ ہے۔پھر بھی تحقیقاتی صحافت سے منسلک کچھ صحافی کئی سالوں سے اکثر بڑی خبریں لاتے ہیں لیکن ان میں انہیں خطرے کا سامنا ہوتا ہے اور ادارے کی حمایت یا پشت پناہی حاصل نہیں ہوتی۔ مشکوک کاروبار بے نقاب کرنے کے بعد کچھ صحافی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔گزشتہ تین دہائیوں میں ہم نے لوگوں کو راتوں رات ارب پتی بنتے دیکھا لیکن گزشتہ 12سال میں یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ میڈیا کے کاروبار میں لوگ عوام کی خدمت یا انہیں مطلع کرنے کےلیے نہیں بلکہ اپنے کاروباری مفادات کو بچانے کےلیے میڈیا کو استعمال کرتے ہیں ، اس عمل میں انہوں نے ان میڈیا ہاﺅسزکو نقصان پہنچانے کی بھی کوشش کی ، جوکہ تقسیم ہند سے قبل میڈیا کے کاروبار سے وابستہ ہیں ، جب وقت لوگ میڈیا سے پیسے کےلیے نہیں بلکہ جذبے کے تحت منسلک ہوتے تھے۔ گزشتہ دوہفتوں میں جوکچھ ہوا اور آئندہ ہفتوں میں جو کچھ ہونے والا ہے ہم سب کو اس سے سبق سیکھنا چاہیے۔ ایسا لگتا ہے کہ ایگزیکٹ کا معاملہ ابھی بھی ختم نہیں ہوا۔اب آگے کیا ہونےوالاہے ؟ اس کے مستقبل کا انحصار اس کی قانونی جنگ کے نتیجے پر ہے۔میں اب بھی یہ سمجھتا ہوں کہ صحافی قوم کی رہنمائی کرسکتے ہیں لیکن وہ قوم کو گمراہ بھی کرسکتے ہیں ، انتخاب آپ کا ہے۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں