اسلام آباد(نیوز ڈیسک) دنیا بھر میں بڑے صحافی چاہتے ہیں کہ انہیں انکی بڑی خبروں کی وجہ سے جانا جائے اور وہ کبھی خبر کا حصہ نہیں بننا چاہتے۔ واٹر گیٹ سے لے کر ایگزیکٹ اسکینڈل تک صحافی کےلیے باعث فخر بات اس کی خبر اوراس کی معتبریت ہے۔ نیویارک ٹائمز کے نمائندے ڈیکلن والش کی گزشتہ برس اس وقت خبر بنی تھی جب انہیں پاکستان کی جانب سے ناپسندیدہ شخصیت قرار دیا گیا تھا، اور آج وہ ملک میں جعلی ڈگری اسیکنڈل کی ایک بڑی بلاشرکت غیرے (ایکسکلوسیو)خبرہے۔’ ایگزیکٹ کی سلطنت‘ کے زوال کاسہرا یقیناً ڈیکلن والش اور نیویارک ٹائمز کے سر جاتا ہے ، جبکہ پاکستانی میڈیا نے باقی اس خبر کا تعاقب کیا۔ ڈیکلن والش کے مواد سے اختلاف رائے کیا جاسکتا ہے لیکن ان کے حالیہ صحافیانہ کام نے پاکستان میں ہلچل مچادی ہے۔ ان کی یہ بڑی خبر پاکستان میں90کی دہائی میں مہران بینک اسکینڈل کے بعدسب سے بڑی خبرہے۔ اس اسکینڈل کے بارے میں بہت کچھ مزید جاننے اور تحقیقات کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایسےاسکینڈل مجھے بی سی سی آئی اسکینڈل کی یاددلاتا ہے ، جس میں صمد دادابھائی سرمایہ کارانہ کمپنی کے اسکینڈل کے باعث صرف ایک شخص کی وجہ سے لوگوں کو اربوں روپے سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ پاکستان میں میڈیا کی جانب سے دی جانےوالی بدعنوانی کی بڑی خبروں کے باعث کئی حکومتوں کو سبکدوش کیا گیا۔ نیویارک ٹائمزکی شہ سرخی کی خبر کے باعث ایگزیکٹ کے مالک شعیب شیخ کراچی میں مبینہ جعلی ڈگریوں کے مقدمے میں گرفتار ہوچکے ہیں۔ یہ ایک بڑی قانونی جنگ کا نقطہ آغاز ہوسکتا ہے لیکن یقیناً یہ سب نیویارک ٹائمز کے نمائندے کی وجہ سے ہی ممکن ہوسکا۔ اب تک اس اخبار یا صحافی کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر ہوچکا ہے جوکہ اپنی خبر پر قائم ہیں۔ ایگزیکٹ کے پاس تیزی سے وقت ختم ہورہا ہے۔ جیساکہ صورتحال آج ہے ، اور نیویارک ٹائمز کا اپنی خبر پر موقف اور ایف آئی اے کی تحقیقات نے اس خبر کو مزید تقویت دی۔ اس اسکینڈل نے صحافی کی طاقت کی بھی عکاسی کی ہے کہ کوئی بھی صحافی غلط کاموں کو بے نقاب کرنے کےلیے اپنی طاقت کا استعمال کرسکتا ہے۔
مزید پڑھئے:سیلفی کا شوق، خاتون نے خودکو گولی مارلی
اس نے یہ بھی ظاہر کیا کہ حقیقی ’بریکنگ نیوز‘ کیا ہے، کچھ ناقدین یہ کہتے ہیں کہ اس خبر کی تحقیقات کسی پاکستانی صحافی نے کیوں نہیں کی اور یہ خبر غیر ملکی صحافی کی جانب سے ہی کیوں سامنے آئی ہے۔ گزشتہ2 سالوں سے مارکیٹ میں ایگزیکٹ کے حقیقی کاروبار کے حوالے سے ہر قسم کی خبریں گردش کررہی تھیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ زبان زدعام ہوگئیں،