کراچی(نیوزڈیسک)ایگزیکٹ کے جعلی ڈگری کے دھندے کا بھانڈا پھوٹنے کے بعد اس کے ٹی وی چینل سے استعفیٰ دینے والے اینکر وجاہت ایس خان کا کہنا ہے کہ انہیں پہلے ہی سمجھ جانا چاہیے تھا کہ اس چمک دمک اور تام جھام کے پیچھے کوئی گڑبڑ ہے۔ وزیرداخلہ چوہدری نثار نے پریس کانفرنس میں ایگزیکٹ اسکینڈل پر ایف بی آئی سے مدد لینے اور ایف آئی آر درج کرنے کا اعلان کیا تو اس کے فورا بعد ہی ایگزیکٹ کے چینل کے بڑے بڑے برج الٹنے لگے۔ چینل کے صدر اور سی ای او سمیت چھ بڑون نے استعفیٰ دے دیا، ان میں سے ایک نام ممتاز اینکر وجاہت ایس خان کا بھی ہے جنہوں نے ایگزیکٹ کے چینل سے علیحدگی کے بعد پہلی بار زبان کھولی ہے۔ ایک سوشل ویب سائٹ پر اپنے آرٹیکل میں وجاہت ایس خان نے لکھا ہے کہ مجھے اور میرے ساتھیوں کو پہلے ہی سمجھ جانا چاہیے تھا مگر ہم کچھ جاننا ہی نہیں چاہتے تھے۔ وجاہت خان نے لکھا ہے کہ مجھے اس وقت بھی سمجھ جانا چاہیے تھا جب نیویارک ٹائمز کے رپورٹر ڈیکلن والش نے اپنی رپورٹ کی اشاعت سے کچھ دن قبل مجھ سے رابطہ کیا اور ایگزیکٹ کے کاروبار کے بارے میں استفسار کیا۔ مجھے اس وقت بھی سمجھ جانا چاہیے تھا جب میں نے اپنے افسروں کو اس بارے میں بتایا کہ نیویارک ٹائمز کس اسٹوری پر کام کررہا ہے۔ اس کے جواب میں ان کی ابتدائی خاموشی اور پھر اعتماد سے خالی جواب ملا کہ کوئی پروا نہیں، ہم نیویارک ٹائمز پر مقدمہ کریں گے،مجھے اس وقت بھی سمجھ جانا چاہیے تھا۔مجھے اس وقت بھی سمجھ جانا چاہیے تھا جب میں نے کیمروں کے فلیش کی چکاچوند دیکھی، کاروں اور پروٹوکول افسروں کی ریل پیل دیکھی، ویٹروں اور شوفروں کی بھرمار دیکھی، جب میں نے امریکی لہجے میں انگریزی بولنے والوں کو سنا، جب لفٹ میں یہ ریکارڈنگ سنی کہ میں عالمی اشرافیہ میں شامل ہوا ہوں۔ مجھے اس وقت بھی سمجھ جانا چاہیے تھا جب فوٹو گرافر نے میرا برانڈنگ فوٹو شوٹ لیا یا جم میں مجھے بڑی اسکرین کے لیے تیار کرنے والے انسٹرکٹر کی فراہمی سے۔واضح طور پر مجھ سے غلطی ہوئی۔ میں نے بدی کو نیکی سمجھا۔ ایگزیکٹ کے چمکتے چینل کو سونا جانا، اسے ایک موقع گردانا اور اسے ایک جعلی ڈگری کی طرح خرید لیا۔ یہ موقع میڈیا کے ان بڑے ناموں کی جانب سے فراہم کیا گیا تھا جنہیں میں اپنا رول ماڈل سمجھتا تھا اور جن کی تقلید کرتا تھا مگر ان لوگوں نے اپنی عزت بھی گنوائی، مجھےاور 2ہزار صحافی کارکنوں کو نیچا دکھایا اور ملک کی بدنامی کا باعث بھی بنے۔ ایمانداری سے کہوں تو میں نے بھی اس کام میں ان کی مدد کی کیوں کہ میری ا?نکھوں پر پردے پڑے ہوئے تھے۔میری بے وقوفی تھی کہ میں نے اچھی طرح چھان بین کیے بغیر اپنے سینئروں کے خوش نما وعدوں پر اعتبار کیا جو میڈیا میں قابل اعتماد نام تھے مگر شاید وہ اپنے جنون کے ہاتھوں اندھے ہوچکے تھے یا جان بوجھ کر گریٹ گیم کا پانسا پلٹنا چاہتے تھے۔ ہم نے اپنوں اور پرایوں کی تنقید کے باوجود ایگزیکٹ کے چینل میں کام جاری رکھا کیوں کہ ہم کامیابی کی منزل کی تلاش میں تھے۔ نیویارک ٹائمز کی اسٹوری کے بعد ایگزیکٹ اور اس کے چینل کی عمارت زمیں بوس ہونے لگی۔ اس کے ارباب اختیار کی زبانیں لڑکھڑانے لگیں اور تقریروں کا جوش پھیکا پڑنے لگا۔ چینل کے رپورٹر نظریں چرانے لگے، ان کی کمریں جھک گئیں، نچلے درجے کے ملازمین بھی غائب ہونے لگے، چینل کے فائیواسٹار ریسٹورنٹ کا کھانا بدمزہ لگنے لگا اور ہمارے فیول کارڈز کی ادائیگی بھی روک لی گئی۔ جو چینل اپنے حریفوں کو توڑنا چاہتا تھا وہ خود ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا۔ ان حالات میں میرے پاس استعفے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔