کراچی (نیوزڈیسک) سانحہ صفورا چورنگی میں ملوث مرکزی ملزم سعد عزیز قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی تحویل میں ہے اور تفتیش کے دوران اہم انکشافات سامنے آئے ہیں ، تفتیشی ذرائع کو ملنے والی معلومات کے مطابق 27 سالہ بزنس گریجویٹ دہشت گرد کی زندگی یونیورسٹی کے پہلے دو سال نارمل تھی، قریبی دوستوں کا کہنا ہے سعد کو برگر بچہ کہا جاتا تھا، اس کی گرلز فرینڈز بھی تھیں، دوستوں کے ساتھ شیشہ پینے کی محفلوں میں بھی شریک رہتا تھا، خوش مزاج اور فٹ بال کا سرگرم کھلاڑی تھا مگر تیسرے سال یکا یک تبدیلی آئی تو سب نے محسوس کی، سعد نے لڑکیوں سے بات کرنا چھوڑ دی۔ڈان نیوز کے مطابق ملزم پھر اچانک کلاس روم میں بھی پچھلی نشستوں پر بیٹھنے لگا۔ داڑھی بڑھالی، پرانے دوستوں کو چھوڑ دیا۔ آئی بی اے اقراءسوسائٹی میں مذہبی رجحان رکھنے والے لوگوں میں بیٹھنے لگا۔ بی بی اے کی ڈگری لینے کے بعد سعد کا کسی دوست سے کوئی خاص رابطہ نہ رہا۔ وہ چند ماہ کے لئے کہیں چلا بھی گیا، کچھ لوگوں کا خیال ہے وہ جہادی تربیت پر گیا تھا، وہ کسی تبلیغی جماعت میں شامل نہیں ہوا بلکہ کچھ عجیب سے لوگوں کی صہبت میں شامل ہوا تھا۔ 2013 میں آئی بی اے کے ہم خیال 8 طلبا نے الراشدین نامی آن لائن میگزین بھی شروع کیا۔ ان طلبہ میں 2010 اور 2011 کے بیجز کے سٹوڈنٹ شامل تھے۔میگزین میں کالج اور یونیورسٹی کے طلبا کو اظہار خیال کی دعوت دی گئی جس کا مقصد شدت پسندی کو اجاگر کرنا تھا۔ دوسری طرف ایکسپریس ٹریبیون کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ملزم ڈیفنس میں سماجی کارکن سبین محمود کے قتل کا اعتراف کرچکا ہے ، سبین محمود کو ڈیفنس فیز 2 ایکسٹینشن لائبریری کے قریب سگنل پر اس نے خودگولی ماری۔ سعد عزیز نے یہ بھی بتایا کہ وہ سبین محمود کے سیمیناروں میں باقاعدہ شرکت بھی کرتا تھا۔ بلوچستان کے موضوع پر ماما قدیر بلوچ کی احتجاجی مہم پر مبنی سیمینار میں بھی اس نے شرکت کی تھی جس کے بعد سبین کو قتل کیا گیا