اسلام آباد(آن لائن) سپریم کورٹ نے قومی زبان اردو کو قانون کے مطابق رائج کرنے کے حوالے سے جواب نہ دینے پر وفاقی حکومت پر دس ہزار روپے جرمانہ عائد کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ وفاقی حکومت بجٹ بنا رہی ہے اس لئے کم جرمانہ کیا ہے وفاقی حکومت دو دنوں میں جواب داخل کرائے جبکہ صوبوں کو صوبائی زبانوں کی ترویج اشاعت کے بارے میں جواب کیلئے دو جون تک مہلت دے دی ہے ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ وفاقی حکومت کا اردو کے حوالے سے رویہ غیر سنجیدہ ہے 1973ءکا آئین بنانے والے نظریاتی اور بڑے لوگ تھے طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں مگر مفادات والوں نے ان کی زبان بندی کررکھی ہے ۔ ایوان اقتدار سنبھالنے والے صرف انگریزی جانتے ہیں 1971ءمیں بنگلہ دیش پاکستان کا حصہ تھا تب بھی وہاں سائن بورڈ بنگالی میں نہیں بنائے جاتے تھے ۔ انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز دیئے ہیں ۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی درخواست گزار کوکب اقبال ، ڈپٹی اٹارنی جنرل اور چاروں ایڈووکیٹ جنرل کے نمائندے عدالت میں پیش ہوئے وفاقی حکومت کی طرف سے بتایا گیا کہ جواب داخل نہیں کراسکے کیونکہ وفاقی حکومت اس وقت بجٹ بنانے میں مصروف ہے اس پر جسٹس جواد نے کہا کہ بجٹ عوام کے لیے ہوتا ہے اور یہ مقدمہ بھی عوام کے لیے ہے لہذا اس پر بھی توجہ دے دی جاتی تو کیا ہرج تھا ۔ انہوں نے وفاقی حکومت کو جرمانہ عائد کردیا ۔ صوبوں نے اس دوران جواب کے لئے مہلت مانگی درخواست گزار کوکب اقبال نے کہا کہ ہر کام میں انگریزی رکاوٹ ہے مقابلے کے امتحان میں سب سے بڑی رکاوٹ انگریزی بن کر رہ گئی ہے کیونکہ اسلامیات تک کا پرچہ انگریزی میں لیا جاتا ہے بعد ازاں عدالت نے حکم نامہ تحریر کراتے ہوئے کہا کہ گزشتہ تاریخ پر صوبائی حکومتوں کو بھی نوٹس جاری کیا گیا تھا ان کے نمائندگان پیش ہوئے اور مہلت کی استدعا کی تاکہ وہ صوبوں میں وہاں کی قربانیوں کی ترویج کیلئے اقدامات بارے رپورٹ عدالت میں جمع کرواسکیں یہ ذمہ داری وفاق اور صوبوں دونوں پر ہے وفاق دو روز میں جبکہ صوبے دو جون تک رپورٹ جمع کروائیں بعد ازاں کیس کی سماعت دو جون تک ملتوی کردی گئی ۔