لاہور(نیوزڈیسک) وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستانی قوم دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی جنگ لڑ رہی ہے اور اس جنگ میں پاک افواج اور پولیس کے افسروں و جوانوں نے لازوال قربانیاں دی ہیں اور قوم کو ان عظیم قربانیوں پرفخر ہے، دہشت گردی کو گولی کے ذریعے تباہ و برباد کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے مکمل خاتمے کے لئے سماجی و معاشی اقدامات او رہر سطح پر انصاف کا بول بالا کرنا ہو گا، پبلک سروس کمیشن کے ذریعے منتخب ہونے والے گوہر نایاب اعلی تعلیم یافتہ پولیس سب انسپکٹرز عملی زندگی میں تھانہ کلچر میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے، پنجاب حکومت میرٹ اور انصاف یقینی بنانے کے لئے پولیس کی تربیت اور بہتری کے لئے پیٹ کاٹ کر تمام وسائل فراہم کر رہی ہے اور مستقبل میں بھی پولیس کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے کیلئے وسائل فراہم کئے جائیں گے،اگر ہم میرٹ اور انصاف پر مبنی نظام قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے تو دنیا کی کسی بھی قوم سے پیچھے نہیں رہیں گے۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر تھانہ کلچر بدل دیں تو پھر پاکستان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ وہ پولیس کالج سہالہ میں پبلک سروس کمیشن کے ذریعے منتخب ہونے والے سب انسپکٹرز کی ٹریننگ کی تکمیل پر پاسنگ آوٹ پریڈ کے موقع پر خطاب کر رہے تھے۔ وزیر اعلیٰ نے تربیت مکمل کرنے والے سب انسپکٹرز کی پریڈ کا معائنہ کیا اور نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے سب انسپکٹرز میں شیلڈز اور انعامات تقسیم کیے ۔ وزیراعلیٰ نے سب انسپکٹرز کو تربیت دینے والے ٹرینرز کیلئے 25 لاکھ روپے کے خصوصی انعام کا اعلان کیا- وزیراعلیٰ نے پولیس کالج سہالہ کے ملازمین کو بگ سٹی الاﺅنس دینے کا بھی اعلان کیا۔وزیر اعلی پنجاب محمد شہباز شریف نے پاسنگ آوٹ پریڈ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پولیس میں خالصتاً میرٹ پر افسران اور ملازمین بھرتی کرنے کا سفر مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 1998 میں پبلک سروس کمیشن کے ذریعے سے ڈائریکٹ انسپکٹرز بھرتی کر کے شروع کیا تھا لیکن یہ سفر 12 اکتوبر کے غیر آئینی اقدام کی وجہ سے وہیں رک گیا۔ محمد شہباز شریف نے کہا کہ انہیں آج انتہائی مسرت اور اطمینان ہے کہ تھانہ کلچر کی تبدیلی کے خواب کا سفر آج دوبارہ شروع ہو چکا ہے اور یہ امر انتہائی اطمینان بخش ہے کہ پاس آوٹ ہونے والے افسران میں ایک پی ایچ ڈی، 22 ایم فل، 31 انجینئر، 34 ایل ایل بی، 17 ایم بی اے، 35 ایم سی ایس،48 ایم اے اور باقی شاندار تعلیمی ریکارڈ رکھنے والے گریجوایٹس شامل ہیں اور سب سے بڑھ کر 411 کے بیج میں 76 اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین افسران نے بھی پولیس میں شمولیت اختیار کی ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ دوران تربیت پولیس افسران کو غیر ملکی اداروں سمیت اعلی معیار کی تربیت اور ماہرین کے خصوصی لیکچرز کے ساتھ ساتھ مقدمات کی تفتیش کی عملی تربیت فراہم کی گئی ہے۔ عالمی اداروں کے ساتھ پولیس افسران کو جدید خطوط پر تربیت فراہم کرنے کے لئے جاری شراکت اور معاونت کو مزید مستحکم اور فروغ دیا جائے گا۔ اعلی تعلیم یافتہ پولیس افسران قوم کی امید ہیں اور اگر ہم تھانہ کلچر میں تبدیلی لانے اور بلاتفریق لالچ، دھونس و دھاندلی کا خاتمہ کرکے انصاف کا بول بالا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو دنیا کی کسی قو م سے بھی پیچھے نہیں رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ 1998 میں ہم نے سفارش کے بغیر خالصتا ًمیرٹ کی بنیاد پر پولیس اور دیگر شعبوں میں بھرتیو ںکے نظام کی بنیاد ڈالی تھی اور اسی نظام کی بدولت سب انسپکٹرز کے موجودہ بیج میں ایک مزدوری کرنے والا بچہ جس نے محنت کر کے ماسٹرز کی ڈگری اور گولڈ میڈل حاصل کیا وہ آج میرٹ پر منتخب ہو کر پاس آﺅٹ ہو رہا ہے اور مجھے یقین ہے کہ میرٹ پر منتخب ہونے والے یہ پولیس افسران زندگی میں انصاف اور میرٹ کو اپنا زیور بنائیں گے۔انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت نے صوبے میں تھانہ کلچر کو بدلنے کیلئے پولیس کے امیج کو بہتر بنانے کی جانب توجہ دی ہے۔ نظم و ضبط، تربیت، خوش اخلاقی اور موثر انداز میں جرائم سے نمٹنا پنجاب پولیس کی خاصیت ہے۔ وزیراعلیٰ نے تربیت مکمل کرنے والے قوم کے بیٹوں اور بیٹیوں کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ آپ جیسے قابل اور بہادر سپوتوں پر قوم کو فخر ہے اور مجھے خوشی ہے کہ قوم کی بڑی تعداد پنجاب پولیس میں شامل ہو رہی ہے تاکہ انصاف کا بول بالا ہو اور عام آدمی کی حقیقی معنوں میں دادرسی ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت نے 1998 میں پولیس میں میرٹ پر بھرتیوں کے سفر کا آغاز کیا تھا، تاہم بدقسمتی سے ملک کی تاریخ میں 12 اکتوبر کا سیاہ دن آیا جس کے بعد قوم کے یہ گوہر نایاب زمانے کے چکر اور زندگی کے تھپیڑوں میںکھو گئے اور پنجاب کے عوام ان سے فیضیاب نہ ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ آج سہالہ کالج میں زیر تربیت سب انسپکٹروں کی پاسنگ آﺅٹ پریڈ اسی سفر کا تسلسل ہے جس کا آغاز1998 میں کیا گیا تھا۔ بلاشبہ یہ سفر اب رواں دواں ہے۔ انسپکٹر جنرل پولیس مشتاق سکھیرا اور کمانڈنٹ سہالہ کالج کی سربراہی میں پنجاب حکومت کی پوری سپورٹ کے ساتھ آپ کو جدید تربیت دی گئی ہے۔ اور آپ نے جو تربیت لی ہے اس پر پوری قوم اور آپ کے والدین کو فخر ہے اور میں پاس آﺅٹ ہونے والے سب انسپکٹرز، ان کے ٹرینرز اور تمام متعلقہ عملے کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جنہوں نے 9 ماہ کی انتھک محنت سے یہ ہیرے تراشے ہیں اور مجھے یقین ہے جب یہ جدید تربیت سے آراستہ سب انسپکٹرزمیدان عمل میں آئیں گے تو انصاف کا بول بالا کریں گے۔ قابلیت اور عزم کے ساتھ عام آدمی کی دادرسی کریں گے جس کی گواہی پنجاب کا کونا کونا دے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پنجاب پبلک سروس کمیشن سے براہ راست انسپکٹرز بھرتی کرنے کا آغاز 1998ءمیں کیا تھا جس کا مقصد تھانہ کلچر کو بدلنا تھا تاکہ عام آدمی کی شنوائی ہو۔ تاہم آج اس جانب بہت بڑی پیش رفت ہوئی ہے اور یہ سب انسپکٹرز تھانہ کلچر میں تبدیلی کا پیش خیمہ بنیں گے۔ یہ قابل نوجوان قوم کیلئے امید کی کرن ہیں اور پاکستان کے 18 کروڑ عوام بالعموم اور پنجاب کے 10 کروڑ عوام بالخصوص آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں اور انہیں انصاف پہنچانا آپ کی اولین ذمہ داری ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پولیس نظام تھانے کی سطح پر تبدیل ہو جائے تو پاکستان کا دنیا میں کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اگر انصاف بلا تفریق اور بلاامتیاز ملے تو اس قوم کا دنیا میں کوئی اور قوم مقابلہ نہیں کر سکتی۔ قائدؒ اور اقبالؒ کا خواب تبھی پورا ہوگا جب ملک میں انصاف کا بول بالا ہوگا، میرٹ کی حکمرانی ہوگی، محنت، امانت اور دیانت کا راج ہوگا، یہی ترقی کا راستہ ہے اور اسی پر ہمیں چلنا ہے۔ وزیراعلیٰ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ اور جرائم کے خاتمے کیلئے پولیس کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ پولیس کے افسروں، جوانوں اور ان کے بچوں نے عظیم قربانیاں دی ہیں اور یہ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی، پوری قوم کو ان قربانیوں پر فخر ہے۔ پاک افواج کے افسروں اور جوانوں نے بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لازوال قربانیاں دی ہیں اور افواج پاکستان نے آپریشن ضرب عضب کے دوران دہشت گردوں پر کاری ضرب لگائی ہے۔ انشااللہ وہ وقت آئے گا جب ملک سے دہشت گردی کا ہمیشہ ہمیشہ کیلے خاتمہ ہوگا کیونکہ دہشت گردی کے خاتمے کے بغیر پاکستان ترقی و خوشحالی کی منازل طے نہیں کر سکتا۔ یہ جنگ جیتنے کیلئے بندوق کی گولی کے ساتھ سماجی و معاشی انصاف کی گولیاں بھی ضروری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کو آگے لے کر جانا ہے تو بوسیدہ نظام کا خاتمہ کرنا ہوگا اور ایسا نظام تشکیل دینا ہوگا جہاں امیر و غریب کا فرق نہ ہو، جہاں سب کو انصاف ملے، تعلیم و صحت کی یکساں سہولتیں اور ترقی کے برابر کے مواقع دستیاب ہوں کیونکہ حضرت علی ؓ کا قول ہے کہ کفر کا نظام زندہ رہ سکتا ہے ناانصافی کا نظام نہیں۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو یا جرائم کے خلاف جدوجہد پولیس کی جرات اور بہادری کی شاندار مثالیں موجود ہیں اور حالیہ دنوں میں رحیم یار خان میں ڈاکوﺅں کے خلاف آپریشن کر کے مغوی پولیس ملازمین کی رہائی اور سینٹ میری پارک لاہور میں ایک ننھے بچے کو اغوا کے فورا بعد ایک سب انسپکٹرکی طرف سے اس کی فوری بازیابی پولیس کی کارکردگی کی اچھی مثالیں ہیں۔ انہو ںنے کہا کہ اگر پولیس کی اچھی کارکردگی کی مثالیں زیادہ اور غفلت اور ناقص کارکردگی کی مثالو ںمیں کمی آ جائے تو حکومت ہی نہیں بلکہ عام شہری بھی خود بخود پولیس کا احترام اور انہیں سلیوٹ کرے گا۔ وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اگر ہم نے اپنے ملک کو قائد اعظم محمد علی جناح ؒاور علامہ اقبالؒ کا پاکستان بنانا ہے تو میرٹ، شفافیت، دیانت اور امانت کا منظم نظام اور ملک میں انصاف کا بو ل بالا کرنا ہو گا۔وزیر اعلیٰ نے اس موقع پر ٹاپ تھرٹی ٹرینرز کو مزید جدید تربیت حاصل کرنے کے لئے بیرون ملک بھجوانے ، پولیس کالج ملازمین کوبگ سٹی الاﺅنس دینے اور سب انسپکٹرز کو تربیت فراہم کرنے والے ماہرین، اساتذہ اور ٹرینرز کو 25 لاکھ روپے بطور انعام دینے کا اعلان کیا۔ انہوںنے گیسٹ سپیکرز کی طرف سے پولیس کالج سہالہ میں آ کر خصوصی لیکچرز دینے پر ان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوںنے اس موقع پر پاس آﺅٹ ہونے والے پولیس افسران ان کے والدین اور عزیز و اقارب کو مبارکباد دی۔ وزیر اعلیٰ نے پولیس کالج سہالہ کی مہمانو ںکی کتاب میں اپنے تاثرات درج کرتے ہوئے لکھا کہ انہیں پولیس افسران کے اعلی تربیتی ادارے کا دورہ کر کے دلی اطمینان اور خوشی ہوئی۔ اس موقع پر مرد اور خواتین سب انسپکٹرز نے آنکھوں پر پٹی باندھ کر جدید ہتھیاروں کو کھولنے اور جوڑنے کا مظاہرہ بھی کیا۔صوبائی وزیر داخلہ کرنل (ر) شجاع خانزادہ، ہوم سیکرٹری پنجاب میجر (ر) اعظم سلمان، آئی جی پولیس پنجاب مشتاق احمد سکھیرا، کمانڈنٹ پولیس کالج سہالہ ڈی آئی جی عامر ذوالفقار، کورس کمانڈنٹ پولیس کالج سہالہ ایس ایس پی علی محسن، منشیات اور جرائم کے بارے میں پاکستان میں اقوام متحدہ کے نمائندہ مسٹر سیسر گوڈیف اور کولی براﺅن سمیت سول اور پولیس سنیئر حکام پاس آوٹ ہونے والے سب انسپکٹرز اور ان کے عزیز و اقارب کی بڑی تعداد اس موقع پر موجود تھی