اسلام آباد(نیوزڈیسک )سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی مصطفیٰ میمن کو سکیورٹی اداروں نے حراست میں لے لیا ہے اور ذرائع کے مطابق انہوں نے سابق صدر پاکستان کے اثاثوں‘ کالے دھن‘ کرپشن اور دیگر جرائم کے متعلق ہوشربا انکشافات بھی کئے ہیں۔ علاوہ ازیں “ٹرپل ایم” نامی ایک مبینہ گروہ کے تین ارکان پر بھی کڑی نظر رکھی جا رہی ہے جو آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کے مالی معاملات کو دیکھ رہے ہیں۔ ان میں سے ایک محمد علی شیخ ہیں جو پاکستان کی ایک بڑی پٹرولیم کمپنی تاج پٹرولیم کے مالک تاج محمد شیخ کے چھوٹے بھائی ہیں۔ یہ پہلے اویس مظفر ٹپی کے مالی معاملات سنبھالتے تھے اور اب آصف علی زرداری کے مالی معاملات کی نگرانی ان کی ذمہ داری ہے۔ دوسرے محمد علی آگروالا جو پہلے ایک ایکسائز افسر تھے اور آج کل بطور ٹی ایم او گڈاپ تعینات ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سندھ کے صوبائی وزیر شرجیل میمن سے وابستہ ہیں اور سابق صدر کے مالی معاملات بھی دیکھتے ہیں۔ تیسرا نام محمد علی میمن کا سامنے آیا ہے جو کراچی کے ایک بڑے بلڈر ہیں اور ان کے بارے میں بھی یہی بتایا گیا ہے کہ وہ آصف علی زرداری اور فریال تالپور کے فرنٹ مین کے طور پر کام کرتے ہیں۔ باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ آئندہ چند روز کے دوران سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں میں جاری ٹارگٹڈ آپریشن کو دہشت گردوں کے علاوہ کرپشن میں ملوث عناصر کے خلاف بھی توسیع دی جائے گی۔ اس سلسلے میں انٹیلی جنس اداروں نے اپنا ہوم ورک بھی مکمل کرلیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس مرتبہ دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ اربوں روپے کی کرپشن‘ قومی اثاثوں میں خردبرد اور زمینوں پر قبضے میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کا حتمی فیصلہ بھی کرلیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مقتدر ادارے اس بات پر یکسو ہیں کہ عام دہشت گردی کے علاوہ یہ “مالیاتی دہشت گردی” بھی ریاست اور قوم کیلئے زہر قاتل کا درجہ رکھتی ہے۔ ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ سندھ میں حکمران پارٹی کی اہم ترین شخصیت کے عملے میں شامل دو اہم افراد اور ایک صوبائی وزیر کے رشتہ دار بھی حراست میں لئے گئے ہیں‘ ان میں سے ایک شخص ایک اہم آئینی عہدے پر بھی تعینات ہے۔ یہ گرفتاری کراچی کے ساحل کے نزدیک ایک کشتی سے اربوں روپے برآمد ہونے کے بعد عمل میں آئی۔ یہاں یہ ذکر بھی اہم ہے کہ ضلع نواب شاہ کے ایک مقامی لیڈر اسماعیل ڈاہری کو بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایک شوگر مل کے منیجر کے ساتھ جھگڑے کے بعد گرفتار کیا تھا۔ اسماعیل ڈاہری نے بھی دوران حراست مالی کرپشن اور دیگر جرائم کے متعلق بڑے انکشافات کئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ رینجرز کی جانب سے رہا کئے جانے کے بعد محکمہ داخلہ سندھ کی ہدایت پر اسماعیل ڈاہری کو تین ماہ کیلئے زیر حراست رکھا گیا ہے۔ دوسری جانب سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن کے فون آپریٹر‘ ایک قریبی عزیز اور سندھ حکومت کے ایک افسر کو بھی گرفتار کیا گیا اور ایک ہفتے تک حراست میں رکھنے کے بعد رہا کردیا گیا۔ دوران حراست ان لوگوں نے بھی کرپشن کے متعلق اہم انکشافات کئے ہیں۔ ان کے علاوہ موجودہ سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی کے قریبی شخص اور ان کے مالی معاملات کے نگران زبیر درانی کو بھی حراست میں لیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق زبیر درانی کی گرفتاری ضلع شکار پور کے علاقے گڑھی یاسین سے عمل میں آئی اور اس نے بھی کرپشن‘ زمینوں پر قبضے اور سرکاری ملازمتوں کیلئے رشوت کے حصول جیسے معاملات کے متعلق قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اہم تفصیلات سے آگاہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ آغا سراج درانی پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت میں وزیر بلدیات تھے اور ان پر بھاری کرپشن اور غیر قانونی تقرریوں کے متعدد الزامات عائد کئے گئے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس وقت اس کشتی کے متعلق تحقیقات کر رہے ہیں جسے کراچی سے دبئی جاتے ہوئے پکڑا گیا تھا اور اس میں سے اربوں روپے کی ملکی اور غیر ملکی کرنسی برآمد ہوئی تھی اور اس حوالے سے بعض انگلیاں سابق صدر آصف زرداری کی طرف بھی اشارہ کر رہی تھیں۔ مصدقہ ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ ان گرفتاریوں کے علاوہ سندھ کے 60 سے زیادہ اعلیٰ سرکاری افسران کے خلاف کارروائی کا فیصلہ بھی کیا ہے جو کرپشن‘ زمینوں پر ناجائز قبضے اور تقرریوں میں رشوت لینے جیسے معاملات میں ان کرپٹ سیاستدانوں کے رفیق کار ہیں