چنانچہ عام انسان نے اسرائیل سے بدلہ لینے کا ایک موثر ہتھیار ڈھونڈ نکالا ہے۔ وہ ہے اسرائیل اور اس کی مدد کرنے والی کمپنیوں کی اشیاء کا بائیکاٹ ہم روز مرہ زندگی میں جو اشیاء استعمال کرتے ہیں موبائیل ،کمپیوٹر ،ٹی وی سے لے کر کھانے پینے کی اشیاء تک وہ سب کسی نہ کسی طرح اسرائیل کی مددگار ثابت ہورہی ہیں۔ ان میں بیشتر کمپنیاں یا تو اسرائیل کی ملکیت ہیں یا ان کے اہم عہدیدار یہودی ہیں اور کئی بڑی اور نامور کمپنیاں ایسی ہیں جو اسرائیل کو فنڈس فراہم کرتی ہیں جن کی مدد سے وہ ہتھیار بناتا ہے اور ان کا تجربہ فلسطینیوں پر کرتا ہے۔ اس فنڈ سے وہ فلسطینیوں کو خود کے گھروں سے نکال کر یہودیوں کی بستیاں آبادکرتا ہے اس فنڈ سے وہ موساد جیسی تنظیم چلاتا ہے جس سے امریکہ بھی خوف کھاتا ہے۔ اسی فنڈ سے وہ امریکہ کے ارکان پارلیمنٹ کو خرید تا ہے۔ اور امریکہ مسلم حکمرانوں کو خریدتا ہے۔ آج دنیا میں امریکہ کی مرضی کے بغیر کوئی حکومت نہیں کرسکتا اور خود امریکی حکومت یہودیوں کی مرضی کے بغیر نہیں چل سکتی۔ اس لئے کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم نادانی میں دانستہ طور پر ایسی اشیاء کا استعمال کررہے ہیں جس سے اسرائیل کی مدد ہورہی ہو اور ہم انجانے میں فلسطینیوں کا خون اپنی گردن پر لے رہے ہیں اور صد فیصد نہیں تو کچھ حد تک اس میں سچائی ہے کہ ہم انجانے میں اسرائیل کی مدد کررہے ہیں۔ ان اشیاء کو خرید کر جو وہ کمپنیاں بناتی ہیں جو اپنے منافع کا کچھ حصہ یہودی قوم کو دے رہی ہیں اگر مسلم ممالک چاہیں تو اسرائیل کا سفارتی سطح پر بائیکاٹ کر کے ان ممالک پر دباؤ ڈال کر جن سے اسرائیل کے تعلقات ہیں صیہونی حکومت کو کمزور کرسکتے ہیں جیسا کہ لاطینی امریکی ممالک نے کیا ہے۔ 5 ممالک نے پنے ملکوں سے صیہونی ریاست کے سفرا کو نکالدیاہے لیکن یہ وہ ممالک ہیں جن کا دنیا پر کوئی اثر نہیں ہے۔ شام میں مدد کرنے والا روس غزہ کے مسئلہ پر خاموش ہے۔ افریقی ممالک میں معاشی تعلقات کو فروغ دینے والا چین لب کشائی سے گریز کررہا ہے۔ برطانیہ،فرانس ،جرمنی پر کسی مسلم ملک کی جانب سے اسرائیل کو روکنے کیلئے کوئی دباو نہیں ڈالا جارہا ہے۔ یہ بات صاف ظاہر ہوچکی ہے کہ عربوں سے کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ ان میں سے نہ کوئی سخت قدم اٹھ سکتا سے نہ ہی آسان۔ کیونکہ اس کام کیلئے ایمان و بہادری کی ضرورت ہے جو دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ عرب ممالک کے دولت مند حکمرانوں کی معنیٰ خیز خاموشی امت مسلمہ کا خون بہانے والوں کو نئے حوصلہ دے رہی ہے کہاں ہیں وہ مملکت اسلامیہ قائم کرنے کا دعوی کرنے والے؟ کہاں ہے طالبان؟ کہاں ہے داعش؟ اور النصرہ ؟کیا ان کے کانوں تک مظلوم فلسطینی اور ان کے بچوں کی چیخیں و آہیں نہیں پہنچ رہی ہیں۔ دنیا میں شریعت نافذ کرنے ہندوستان اور ملایشیاء تک حکومت قائم کرنے کا دعوی کرنے والے ایک معمولی اسرائیل کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ ان کو تو خود اپنے بھائیوں کا خون بہانے میں لطف آتا ہے۔ یہ اسلامی مملکت کے نام پر اپنے کلمہ گو بھائیوں کا خون بہاتے ہوئے اس کو جہاد کا نام دے رہے ہیں کہاں ہے القاعدہ ؟کہاں ہے الظواہری ؟کہاں ہے الشباب، بوکوحرام؟ اور وہ جنگجو؟ جو شام میں بشارالاسد کے خلاف جنگ میں حصہ لینے ازبکستان اور چیچنیا سے پہنچے تھے۔ ان سے پڑوس میں موجود اسرائیل میں داخل ہوا نہیں جاتا۔ پھر یہ کس قسم کے مجاہد ہیں؟۔