اسلام آباد (نیوز ڈیسک) وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ وفاقی انویسٹیگیشن ایجنسی میں بدعنوان لوگوں کو نکالنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں آئی ایس آئی اور انٹیلیجنس بیورو کے نمائندے شامل ہیں۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب میں چوہدری نثار نے کہا کہ ’میں ایف آئی اے میں کلین اپ کرنا چاہتا ہوں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ڈی جی ایف آئی اے کو کہا ہے ایک کمیٹی بنانے کے لیے اور ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی آئی بی کو بھی کہا ہے کہ وہ اس کمیٹی میں اپنے نمائندے شامل کریں۔’کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے اور آئندہ چند دونوں میں اس کا پہلا اجلاس بھی ہو جائے گا۔‘انھوں نے کہا غیر توثیق شدہ اسلحہ لائسنس کی مدت یکم جنوری 2016 کو ختم ہو جائے گی اور 25 سال سے کم عمر افراد کو اسلحہ لائسنس جاری نہیں کیے جائیں گے۔چوہدری نثار نے کہا کہ وزارت داخلہ نے نئے اسلحہ لائسنس کے اجرا پر پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن پنجاب کے علاوہ تینوں صوبوں نے اسلحہ کے لائسنس کے اجرا پر عائد پابندی ختم کر دی ہے۔انھوں نے کہا کہ ماضی میں لوگوں کو نوازنے کے لیے ممنوعہ بور کے اسلحہ کا لائسنس دیا جاتا تھا لیکن مستقبل میں ممنوعہ بور اسلحہ کا لائسنس صرف انھی افراد کو جاری کیا جائے گا جن کی جان کو شدید خطرات لاحق ہوں۔چوہدری نثار نے کہا کہ جانچ پڑتال کرنے پر 4500 اسلحہ کے لائسنس جعلی نکلے ہیں۔ جعلی لائسنس جاری کرنے والے اہلکاروں کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔وزیر داخلہ نے تجویز دی کہ اسلحہ لائسنس کا اجرا نادار کے تعاون سے کیا جانا چاہیے۔ ’ہم چاہتے ہیں کہ نادرا کے تعاون سے ایسا سسٹم بنایا جا سکے جس کے ذریعے تمام اسلحہ لائسنس کی تصدیق کی جائے اور اسلحہ کی ضرورت ثابت کیے بغیر نیا لائسنس جاری نہ کیا جائے۔‘دوسرے ممالک کے ساتھ مجرموں کے تبادلے کے معاہدے کا غلط استعمال کیا جاتا رہا ہے اور ماضی میں کئی مجرموں کو بیرون ملک سے پاکستان منتقل کرنے کے بعد رہا کر دیا گیا۔وزیر داخلہ نے بتایا کہ کسی کا نام بھی سیاسی بنیادوں پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں نام شامل نہیں کیا گیا ہے اور عدالتوں اور تحقیقاتی اداروں کی سفارش پر ہی ای سی ایل میں نام شامل کیے گئے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ 7500 افراد کا نام ای سی ایل میں شامل ہے اور آئندہ ای سی ایل میں نام صرف ایک سال کے لیے شامل کیا جائے گا۔وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ حکومت بلٹ پروف گاڑیوں کے لیے پالیسی بنا رہی ہے جس کے تحت بلٹ پروف گاڑی کے استعمال کے لیے بھی اجازت لینا ہو گی۔ان کا کہنا تھا کہ ان دو برسوں میں کسی کو بھی سکیورٹی کمپنی بنانے کی اجازت نہیں دی گئی ہے اور پاکستان میں بہت سی نجی سکیورٹی کمپنیوں میں ایسے افراد کام کرتے ہیں جن کو اسلحہ چلانا بھی نہیں آتا جبکہ بعض نجی سکیورٹی کمپنیوں میں جرائم پیشہ افراد کام کرتے ہیں۔وزیر داخلہ نے کہا کہ دوسرے ممالک کے ساتھ مجرموں کے تبادلے کے معاہدے کا غلط استعمال کیا جاتا رہا ہے اور ماضی میں کئی مجرموں کو بیرون ملک سے پاکستان منتقل کرنے کے بعد رہا کر دیا گیا۔انھوں نے کہا کہ اب ایسا نہیں کیا جائیگا اور ایسا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔وفاقی حکومت نے صوبوں سے معاہدے کے تحت لائے گئے مجرموں کی فہرست طلب کر لی ہے۔