پی پی پی کی رجسٹریشن کے لئے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے رجوع کیا تاہم دبا کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے فیصلہ لطیف کھوسہ کے حق میں دے دیا حالانکہ کھوسہ نے الیکشن کمیشن کی طرف سے مقررکردہ تاریخ کے بعد پارٹی رجسٹریشن کے لئے درخواست دی تھی۔ انہوں نے کہا کہ عدالتوں میں کیس کی شنوائی میں ناکامی اور بحثوں کے کئی اجلاس منعقد کرنے کے بعد ہم نے 22 اکتوبر کے ایوان اقبال لاہور میں منعقدہ کنونشن میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ پارٹی کی رجسٹریشن کے لئے قانونی جنگ جاری رکھی جائے اور کارکنوں کو سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لئے پلیٹ فارم مہیا کرنے کے لئے پاکستان پیپلزپارٹی ورکرز کے نام سے جماعت رجسٹر کرائی جائے ورکرز کنونشن میں سینٹر ڈاکٹر صفدر عباسی کو متفقہ طور پر پی پی پی ورکرز کا صدر اور ساجدہ میر کو جنرل سیکرٹری چنا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ پی پی پی ورکرز کوئی علیحدہ گروپ یا جماعت نہیں بلکہ یہ ایسے ہی حالات میں معرض وجود میں آئی جن حالات میں پی پی پی الیکشن میں حصہ لینے کیلئے رجسٹر کرائی گئی۔ ہم پی پی پی کا حصہ تھے، ہیں اور رہیں گے۔ کوئی ہم سے ہماری یہ پہچان چھین نہیں سکتا کیونکہ ملک کے غریب عوام ہی بھٹو کے صحیح جانشیں اور وارث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہماری پارٹی کے اغراض و مقاصد میں پارٹی کو نظریاتی اور جمہوری لائن پر منظم کرنا، پارٹی کی موجود حالت کے ذمہ داروں کا احتساب کرنا اور انٹرا پارٹی الیکشن کے ذریعے جماعت کو جمہوری اور ادارہ جاتی نظام دینا ہے۔ انہوں نے پیپلزپارٹی ورکز پارٹی کے منشور کے بنیادی جز کے بارے میں میڈیا کو بتایا کہ قومی سلامتی، پاکستان کی قومی سلامتی بڑی فوجی طاقت پر ہی منحصر نہیں بلکہ اس کا انحصار معاشی تحفظ پر بھی ہے سرحد پار سے کسی بھی ممکنہ جارحیت کو روکنے کیلئے بین الاقوامی سرحد خصوصاً پاک افغان بارڈر کے ایک ایک انچ پر دہشت گردوں کی آمدورفت کو روکنا اور تجارتی راہداریوں پر مکمل دستاویزات کے بغیر آمدورفت کو قطعاً ممنوع قرار دینا ہو گا۔ فوجی قیادت کی طرف سے شروع کیا جائے اور آپریشن ضرب غضب کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے پی پی پی ورکرز کے اغراض و مقاصد جن میں طرز حکومت، صحت، تعلیم، معیشت، خارجہ پالیسی اور میڈیا سے متعلق صحافیوں کو آگاہ کیا۔