حیدرآباد(نیوزڈیسک )آل پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ اور سابق صدرجنرل(ر) پرویز مشرف نے کہا ہے کہ اس وقت ملک میں حکومتی نظام مفلوج ہے معیشت تباہ ہے دہشت گردی جاری ہے جبکہ سیاسی محاذآرائی سے صورتحال مزید خراب ہو رہی ہے کسی ترقیاتی منصوبہ پر کام نہیں ہو رہا حالانکہ خزانے سے بھاری رقوم خرچ ہو رہی ہیں غریبوں کی حالت بدتر ہے گیس بجلی پیٹرول اور پانی کے بحران سے بدحالی میں اضافہ ہو رہا ہے ان حالات میں اے پی ایم ایل کا اہم کردار بنتا ہے کہ وہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے مقابلے میں تیسری سیاسی قوت کے طور پر ابھرے اور تبدیلی لائے اس کے لئے کارکن بھرپور کردار ادا کریں۔وہ ایس آر ٹی سی گراو¿نڈ میں اے پی ایم ایل سندھ کے زیراہتمام منعقدہ صوبائی ورکرز کنونشن سے خطاب کر رہے تھے، مرکزی نائب صدر ریٹائرڈ میجر جنرل راشد قریشی، مرکزی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر امجد، صوبائی صدر شہاب الدین شاہ حسینی، صوبائی جنرل سیکریٹری شاہد قریشی، صوبائی نائب صدر ڈاکٹر ریاض رند، حاجی رمضان پالاری، ضلعی صدر شعیب ملک، اقبال عابدی اور دیگر نے بھی خطاب کیا، بتایا گیا کہ کراچی سے کشمور تک مختلف سطح کے عہدیدار اور کارکن شریک ہوئے ہیں اس کے باوجود پیچھے کافی تعداد میں کرسیاں آخر تک خالی رہیں، خواتین نے بھی محدود تعداد میں شرکت کی۔اے پی ایم ایل کے سربراہ پرویز مشرف نے ویڈیولنک پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب میں نے 2008ئ میں استعفیٰ دیا تھا تو آخر میں ہاتھ لہراتے ہوئے کہا تھا کہ اب ملک کا خدا ہی حافظ ہے اور بدقسمتی سے میری یہ بات سچ ثابت ہوئی ہے 8 سال میں ہم نے پاکستان کو ترقی کی راہ پر اس طرح گامزن کیا تھا کہ وہ دنیا کے 11 ترقی پذیر ملکوں کی صف میں کھڑا ہو گیا تھا مگر بدقسمتی سے بعد میں آنے والی حکومتوں کی پالیسیوں کی وجہ سے صورتحال بدتر ہوتی چلی گئی، انہوں نے کہا کہ میرے استعفے کے بعد ڈیڑھ سال میں ہی صورتحال بہت خراب ہو گئی تھی اس لئے میں نے 2010ئ میں آل پاکستان مسلم لیگ قائم کی تھی کیونکہ میں نے ضرورت محسوس کی تھی کہ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے مقابلے میں پاکستان کو اب ایک تیسری مضبوط قوت کی ضرورت ہے، انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی چار چار مرتبہ حکومت کر چکی ہیں مگر ایک بار بھی انہوں نے ملک کی ترقی کے لئے کچھ نہیں کیا اس لئے میں نے فیصلہ کیا کہ ہم خیال پارٹیوں کے ساتھ مل کر تبدیلی لائی جائے، انہوں نے کہا کہ 2013ئ میں مجھے خود بھی اندازہ تھا اور میرے دوستوں اور خیرخواہوں نے بھی مجھے مشورہ دیا کہ پاکستان نہ جائیں آپ کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کرکے کورٹوں میں گھسیٹا جائے گا لیکن مجھے عوام کی بگڑتی ہوئی حالت اور ملک کی تباہی پر دکھ تھا اس لئے میں نے جانتے بوجھتے یہ فیصلہ کیا کہ میں پاکستان آ کر لوگوں کو بیدار کروں اور ایسی نئی سیاسی فورس بناو¿ں جو 2013ئ میں الیکشن جیت کر ایک ایماندار اور ذمہ دار حکومت بنائے جو ملک میں خوشحالی اور ترقی لائے، انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے میرے خلاف بے بنیاد مقدمات تو بنائے ہی گئے لیکن ساتھ ہی انتخابات میں حصہ لینے پر بھی مجھ پر پابندی عائد کر دی گئی اس لئے اے پی ایم ایل نے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا اور آج ملک جن داخلی اور خارجی حالات سے دوچار ہے وہ پوری قوم کے سامنے ہے، آمر پرویز مشرف نے کہا کہ آپ دیکھیں کہ ملک کی معیشت تباہ ہو چکی ہے ہر طرف دہشت گردی ہے سیاسی جماعتوں میں محاذآرائی ہو رہی ہے حکومت کے نظام کا کچھ پتہ نہیں چل رہا، بجلی گیس تیل پانی کے بحران سے پوری قوم خصوصاً غریبوں کی بہت بری حالت ہے قومی خزانے سے بھاری رقوم خرچ ہو رہی ہیں لیکن کسی ترقیاتی منصوبے پر کام نہیں ہو رہا یہ رقم کہاں جا رہی ہے کچھ علم نہیں اسی طرح عدل و انصاف کہیں نظر نہیں آ رہا، پرویز مشرف نے کہا کہ اسلام کی بنیاد عدل و انصاف ہے جس ملک میں عدل و انصاف نہ ہو وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کیسے کہلا سکتا ہے، انہوں نے کہا کہ عوام اس وقت تبدیلی چاہتے ہیں تاکہ ایک ایماندار اور ذمہ دار حکومت قائم ہو موجودہ حالات میں کوئی غریبوں کی فریاد سننے والا نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ ملک میں تبدیلی لانے کے لئے ایک تیسری سیاسی قوت کی ضرورت ہے ان حالات میں اے پی ایم ایل کا بہت اہم کردار ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم پارٹی کو یوسی کی سطح تک منظم کریں طاقتور بنائیں اور ہم خیال گروپوں اور دھڑوں کو بھی ساتھ شامل کریں تاکہ ایک پختہ سیاسی طاقت ابھر سکے، انہوں نے کہا کہ پیپلزپاٹی اور مسلم لیگ (ن) جو سیاست کر رہی ہیں اس میں تبدیلی لانا بہت ضروری ہے اس کے لئے پورے ملک میں تنظیم سازی کی جائے سندھ میں مجھے پارٹی کی کچھ تنظیم سازی نظر آ رہی ہے مگر اس کو نچلی سطح پر پھیلا کر مضبوط کیا جائے یہی آگے بڑھنے اور کامیابی کا راستہ ہے، انہوں نے کہا کہ مجھے احساس ہے کہ آج میں آپ سے ویڈیولنک کے ذریعے گفتگو کر رہا ہوں مگر حالات تبدیل ہوں گے اور میں آپ کے سامنے کھڑے ہو کر بات کروں گا، انہوں نے “سب سے پہلے پاکستان” کے نعرے کے ساتھ اپنی تقریر ختم کی