کراچی (نیوزڈیسک)سندھ ہائی کورٹ کے دو رْکنی بینچ نے بدھ کو ایک قیدی محمد اجمل کی کراچی جیل سے سکھر جیل میں منتقلی کے خلاف ایک درخواست کی سماعت سے انکار کردیا۔واضح رہے کہ محمد اجمل، اجمل پہاڑی کے نام سے جانا جاتا ہے۔جسٹس احمد علی ایم شیخ کی سربراہی میں ڈویڑن بینچ نے یہ معاملہ مناسب احکامات جاری کرنے لیے سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے پاس بھیج دیا ہے۔یاد رہے کہ اجمل پہاڑی کو نئی کراچی میں مارچ 2011ء کے دوران دوبارہ گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے خلاف بڑی تعداد میں فوجداری مقدمات درج ہیں، جن میں سی آئی ڈی کے ایس پی محمد اسلم خان کے قافلے پر گزری میں جنوری 2006ء کے دوران ایک مسلح حملہ بھی شامل ہے، جس میں دو پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔وہ ان 74 سزایافتہ اور زیرِسماعت قیدیوں میں شامل تھا، جنہیں سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مقبول باقی کی منظوری کے بعد 2014ء میں کراچی سینٹرل جیل سے صوبے کی دیگر جیلوں میں منتقل کیا گیا تھا۔کراچی جیل کے سپریٹنڈنٹ نے عدالتی حکم پر ایک رپورٹ جمع کرائی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ کراچی جیل میں پانچ ہزار دوسو قیدی موجود ہیں، جن میں سے زیادہ تر ہائی پروفائل جرم میں ملؤث ہیں، اور پیشہ ور، عادی اور طویل عرصے سے جرائم سے وابستہ ہیں۔اس رپورٹ کا کہنا تھا کہ ان میں سے سینکڑوں کا تعلق یاتو کالعدم تنظیموں سے ہے یا پھر شہر کے امن و امان کے بگاڑ میں ملوث رہے تھے۔مزید یہ کہ جیل پر ممکنہ حملے کے سلسلے میں مختلف ایجنسیوں کی جانب سے خبردار کیا گیا تھا، جس سے جیل کے قیدیوں کے ساتھ ساتھ جیل کے ارگرد رہنے والے معصوم شہریوں کی جانوں کو بھی خطرہ ہوسکتا ہے۔جیل سپریٹنڈنٹ نے اپنی رپورٹ میں بیان کیا تھا کہ ایسے کسی بھی ممکنہ حملے اور ہائی پروفائل قیدیوں کے منتشر ہوجانے کے نکتہ نظر کے تحت حکومتِ سندھ نے یہ قیدیوں کی منتقلی معاملہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے سامنے رکھا، انہوں نے ان قیدیوں کی سینٹرل جیل سے صوبے کے دیگر جیلوں میں ان کے مقدمات کے ساتھ منتقلی کے احکامات جاری کردیے، تاکہ ان مقدمات کو متعلقہ عدالتوں میں سماعت کی جائے اور فوری طور پر فیصلہ دیا جائے۔اجمل پہاڑی کی پہلی مرتبہ گرفتاری 2000ء میں عمل میں آئی تھی، اور اس کے خلاف کئی مقدمات درج تھے، جن میں ایک امریکن یونین ٹیکساس کے چار ملازموں کے ساتھ ان کے پاکستانی ڈرائیور کی ہلاکت سے متعلق تھا۔ تاہم اسے پانچ سال کے اندر اندر ان تمام مقدمات سے بری کردیا گیا اور 2005ء میں اسے رہا کردیا گیا تھا۔
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں