اسلام آباد (این این آئی)سینیٹ نے 26ویں آئینی ترمیمی بل کی تمام 22شقوں کی منظوری دیدی ،بل کی منظوری کیلئے ووٹ دینے والوں میں حکومتی اتحاد کے 58 ووٹوں کیساتھ اپوزیشن پارٹی جمعیت علماء اسلام کے 5 ارکان بھی شامل ہیں،آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے والوں میں بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) مینگل کے 2 ارکان بھی شامل ہیں جبکہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایکسٹینشن میں دلچسپی نہیں رکھتے ، اپنی مدت پوری کرکے چلے جائیں گے،سپریم کورٹ میں متعارف کرائے جانے والے آئینی بینچز کا تقرر اور نامزدگی جوڈیشل کمیشن آف پاکستان ہی کریگا، مجوزہ بل کے مطابق جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس سربراہی میں سپریم کورٹ کے چار سینئر ججز پر مشتمل ہوگا،
جوڈیشل کمیشن میں دونوں ایوانوں سے حکومت اور اپوزیشن کے 2،2ارکان پارلیمنٹ بھی شامل ہوں گے، آئینی بینچز کی تشکیل کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو ہو گا ۔اتوار کو چیئرمین یوسف رضا گیلانی کی زیرصدارت سینیٹ اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26آئین ترمیم پر ووٹنگ کی تحریک پیش کی جسے کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا، اس کے بعد چیئرمین سینیٹ نے ایوان کے تمام دروازے بند کرنے کا حکم دیا، مہمانوں کی گیلری خالی کروانے کی ہدایت کی۔اس دوران اپوزیشن نے رانا ثنا ء اللہ اور اٹارنی جنرل کو ایوان سے باہر بھیجنے کا مطالبہ کیا، اس پر سینیٹر اسحاق ڈار نے جواب دیا کہ یہاں بیٹھنا ان کا آئینی حق ہے۔
سینٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کا عمل شروع کردیا گیا جبکہ اپوزیشن نے شور شرابہ شروع کردیا۔ایوان نے 26ویں آئینی ترمیمی بل کی شق نمبر 2 کی منظوری دے دی جس کے حق میں 65 ارکان نے حق میں ووٹ دیا اور 4 نے مخالفت کی جبکہ آئینی ترمیم کی شق وار منظوری کا عمل جاری رہا اور سینیٹ نے26ویں آئینی ترمیمی بل کی تمام22شقوں کی منظوری دے دی۔26ویں آئینی ترمیمی بل پر شق وار منظوری کا عمل مکمل ہونے کے بعد سینیٹ ہال کے تمام دروازے بند کردیے گئے اور پراسس ڈویژن کا آغاز ہوا۔چیئرمین سینٹ کی جانب سے لابی کی تقسیم کا اعلان کیا گیا، آئینی ترمیم کے حق میں ارکان کے لئے دائیں ہاتھ کی لابی مقرر کی گئی جب کہ مخالفت کے لیے بائیں جانب کی لابی مقرر کی گئی۔
ممبران ڈویژن میں ووٹ ڈالنے کے لیے لابیز روانہ ہوگئے، بل کے حق میں اور مخالفت کرنیوالے ممبران اپنی اپنی لابیز میں چلے گئے، لابی سے باہر دستخط کے لیے رجسٹر اور سینٹ عملہ موجود تھا۔بعد ازاں چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ وٹنگ کا عمل مکمل ہوگیا ہے، نتیجہ موصول ہوگیا ہے۔چیرمین سینیٹ نے کہا کہ سینیٹ کے 65 ارکان نے 26ویں آئینی ترمیمی بل کے حق میں ووٹ دیا جب کہ سینیٹ کے 4ارکان نے 26ویں آئینی ترمیمی بل کے خلاف ووٹ دیا، اس طرح سے چھبیسویں آئینی ترمیم بل 2024 دو تہائی اکثریت کے ساتھ سینیٹ سے منظور کر لی گئی۔بل کے مطابق 22 شقوں پر مبنی 26 ویں آئینی ترامیم کے تحت سپریم کورٹ کا آئینی بینچ تشکیل دیا جائیگا، جوڈیشل کمیشن آئینی بینچز اور ججز کی تعداد کا تقرر کرے گا، آئینی بینچز میں جہاں تک ممکن ہو تمام صوبوں سے مساوی ججز تعینات کیے جائیں گے۔
بل کے مطابق آرٹیکل 184 کے تحت از خود نوٹس کا اختیار آئینی بینچز کے پاس ہوگا، آرٹیکل 185 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق کیسز آئینی بینچز کے دائرہ اختیار میں آئیں گے، آئینی بینچ کم سے کم 5 ججز پر مشتمل ہوگا، آئینی بینچز کے ججز کا تقرر تین سینیئر ترین ججز کی کمیٹی کرے گی، چیف جسٹس کا تقرر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی سفارش پر کیا جائے گا۔بل کے متن کے مطابق پارلیمانی کمیٹی سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز میں سے چیف جسٹس کا تقرر کرے گی، کمیٹی کی سفارش پر چیف جسٹس کا نام وزیراعظم، صدر مملکت کو بھجوائیں گے، پارلیمانی کمیٹی چیف جسٹس کی تعیناتی 2 تہائی اکثریت سے کرے گی، کسی جج کے انکار کی صورت میں اگلے سینیئر ترین جج کا نام زیر غور لایا جائے گا۔
بل کے مطابق چیف جسٹس کے تقرر کے لئے 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی بنائی جائیگی، پارلیمانی کمیٹی میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کی متناسب نمائندگی ہوگی، پارلیمانی کمیٹی میں 8 ارکان قومی اسمبلی چار ارکان سینٹ ہوں گے، چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت تین سال ہوگی، چیف جسٹس کے لیے عمر کی بالائی حد 65 سال مقرر ہوگی۔بل میں کہا گیا کہ آرٹیکل 184 تین کے تحت سپریم کورٹ اپنے طور پر کوئی ہدایت یا ڈیکلریشن نہیں دے سکتی، آرٹیکل 186 اے کے تحت سپریم کورٹ ہائی کورٹ کے کسی بھی کیس کو کسی دوسری ہائی کورٹ یا اپنے پاس منتقل کر سکتی ہے، ججز تقرری کمیشن ہائی کورٹ کے ججز کی سالانہ کارکردگی کا جائزہ لے گا، سپریم کورٹ کے ججز کا تقرر جوڈیشل کمیشن کرے گا۔
اس میں کہا گیا کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن میں چار سینئر ترین ججز شامل ہوں گے، وفاقی وزیر قانون اٹارنی جنرل بھی کمیشن کے ارکان ہوں گے، کم سے کم 15 سال تجربے کا حامل پاکستان بار کونسل کا نامزد کردہ وکیل دو سال کے لیے کمیشن کا رکن ہوگا، دو ارکان قومی اسمبلی اور دو ارکان سینٹ کمیشن کے رکن ہوں گے۔قبل ازیں چیئرمین یوسف رضا گیلانی کی زیرصدارت سینیٹ اجلاس کے آغاز پر نائب وزیراعظم سینیٹر اسحاق ڈار نے چیئرمین سینیٹ سے معمول کی کارروائی ملتوی کرنے کی تحریک پیش کی جسے ایوان نے منظور کرلیا، بعدازاں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان بالا میں 26 ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کیا۔اس سے قبل وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26 ویں آئینی ترمیم کے مسودے پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ طویل مشاورت کی ہے ، جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ساتھ بھی مشاورت کی گئی۔انہوں نے کہاکہ اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری کے طریقہ کار کو 18 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے تبدیل کیا گیا اور اس میں پارلیمان نے بڑی محنت اور غور و خوض کے بعد ایک ایسا طریقہ کار متعارف کرایا جس میں یہ ممکن بنایا گیا کہ اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تقرری کو شفاف اور میرٹ کے مطابق کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ اس کمیشن کی تشکیل اس طرح کی گئی کہ اس میں متعلقہ شراکت دار ہوں جبکہ صدر اور وزیراعظم نے اپنا اختیار چھوڑ کر پارلیمان کو دیا تاہم اسی دوران سپریم کورٹ میں متفقہ طور پر منظور کی گئی 18ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواست دائر کروائی گئی جسے فوری سماعت کیلئے منظور کرلیا گیا اور اس درخواست کی سماعتوں میں یہ پیغام دیا گیا کہ اگر اس نظام میں توازن ساتھ والی عمارت ( سپریم کورٹ) کومنتقل نہیں کریں گے تو یہ ترمیم منسوخ کردی جائے گی۔انہوں نے کہاکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ پارلیمان کی بالادستی اور آزادی پر کھلا عدم اعتماد اور کسی حملے سے کم نہیں تھا، ان معروضی حالات میں 19ویں ترمیم کی گئی اور اس 19 ویں ترمیم میں جوڈیشل کمیشن کی ترتیب کا جھکاؤ اعلیٰ عدالت کی طرف کردیا گیا اور پارلیمانی کمیٹی کے اختیارات میں بھی تبدیلی کردی گئی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان بار کونسل اور سپریم کورٹ بارکونسل نے بارہا اس حوالے سے مطالبہ کیا اور یہاں تک کہا گیا کہ اس نظام سے زیادہ بہتر نظام اس وقت کام کررہا تھا جب ججز کی تقرری صدر وزیراعظم کی ایڈوائس پر کیا کرتے تھے، لہٰذا اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے تجویز کیا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 175اے میں مناسب ترامیم کی جائیں اور اس کے بعد پچھلے 6 سے 8 ہفتوں میں مختلف ملاقاتوں کے بعد اس کمیشن کی جو شکل بنی ہے وہ آج اس بل کی صورت میں آپ کے سامنے رکھی جارہی ہے۔وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ مجوزہ بل کے مطابق جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس سربراہی میں سپریم کورٹ کے چار سینیئر ججز پر مشتمل ہوگا،جوڈیشل کمیشن میں دونوں ایوانوں سے حکومت اور اپوزیشن کے 2،2ارکان پارلیمنٹ بھی شامل ہوں گے، آئینی بینچز کی تشکیل کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو ہو گا۔انہوں نے کہاکہ جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کے لیے تجویز کیا گیا ہے کہ اس میں چیف جسٹس آف پاکستان، آئینی بینچ کی سربراہی کرنے والے جج، سپریم کورٹ کے 3 سینئر ترین جج، وفاقی وزیرقانون، اٹارنی جنرل آف پاکستان، پاکستان بار کونسل کا 2 سال کیلیے نامزد کردہ کم ازکم 15 تجربے کا حامل وکیل، دونوں ایوانوں سے حکومت اور اپوزیشن کے2،2 ارکان اس کمیشن میں شامل کیے جائیں گے اور اگر قومی اسمبلی تحلیل ہوگی تو سینیٹ سے ہی حکومت اور اپوزیشن کے 2،2 ارکان کمیشن میں شامل کیے جائیں گے۔
وزیر قانون نے بتایا کہ مجوزہ ترمیم میں اسپیکر قومی اسمبلی کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جوڈیشل کمیشن میں ٹیکنوکریٹ کی اہلیت پر پورا اترنے والے پارلیمنٹ سے باہر کی خاتون یا اقلیتی رکن کو نامزد کرسکیں گے، انہوں نیکہا کہ کمیشن میں صوبوں کی نمائندگی کو برقرار رکھا گیا ہے۔انہوں نے کہاکہ جوڈیشل کمیشن کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے رولز کے ذریعے ایسا مساوی معیار مقرر کریں جس کے ذریعے ججز کی کارکردگی کا جائزہ لیا جاسکے اور اگر کسی جج کی کارکردگی اور صلاحیت کے حوالے سے مسائل ہیں تو اس حوالے سے سپریم جوڈیشل کونسل کو آگاہ کیا جاسکے۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں متعارف کرائے جانے والے آئینی بینچز کا تقرر اور نامزدگی بھی جوڈیشل کمیشن آف پاکستان ہی کریگا۔
وزیر قانون نے واضح کیا کہ چیف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے 6 ماہ میں ہونے والی 3 ملاقاتوں میں برملا اس بات کو واضح کیا کہ وہ ایکسٹینشن میں دلچسپی نہیں رکھتے اور اپنی مدت پوری کرکے چلے جائیں گے، چیف جسٹس نے کہاکہ آپ اگر کوئی مدت مقرر کرنا چاہتے ہیں، کوئی نئی عدالت بنانا چاہتے ہیں تو وہ میرے بعد لاگو ہوگا، میں کسی ایکسٹیشن میں دلچسپی نہیں رکھتا۔انہوں نے کہا کہ اس بل میں سپریم کورٹ میں آئینی بینچز کے حوالے سے ترمیم تجویز کی گئی ہے، انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ کی اصل جورسڈکشن کا ماضی میں اتنہائی غلط استعمال کیا گیا، ایک چیف جسٹس نے دروازے کھول دیے اور سیکڑوں سوموٹو ایکشن کی یلغار ہوگئی، کچھ ادوار میں بالکل امن بھی رہا۔وزیر قانون نے چیئر مین سینیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ ہماری عدالت عظمیٰ نے آرٹیکل184 اور دیگر اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے کروڑوں پاکستانیوں کے منتخب وزیرائے اعظم کو گھر بھیجا، موجودہ چیئرمین سینیٹ خود شکار بنے اور میاں نواز شریف کو جس طرح گھر بھیجا گیا حالانکہ وزیراعظم کو رخصت کرنے کا آئینی طریقہ آرٹیکل 95 میں موجود ہے جس کے ذریعے ہم نے 2022 میں وزیراعظم تبدیل کیا، لیکن ہم اس عدالتی طریقے اور بند دروازوں کے پیچھے ہونے والے فیصلوں کو نہیں مانتے۔وزیر قانون نے بتایا کہ سینیٹر کامران مرتضیٰ کی تجویز پر اس بل کے ذریعے آئینی بینچز کا قیام عمل میں لایاجارہا ہے، جو سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار میں رہ کر جو آرٹیکل 184 اور 186 کے تحت اختیارات کا استعمال کرسکیں گے جس میں ازخود نوٹس لینے کا اختیار بھی شامل ہے،
انہوں نے کہا آئینی بینچ کے ججز کی تقرری بھی جودیشل کمیشن آف پاکستان کریگا۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں کئی ادوار ایسے آئے جس میں چیف جسٹس کی میعاد 6،7 سال تھی جس کے ثمرات ہم سب کے سامنے آئے لہٰذا اب یہ تجویز کیا گیا ہے کہ دیگر آئینی عہدوں کی طرح چیف جسٹس کی کے عہدے کی میعاد بھی 3 سال ہوگی اور سپریم کورٹ کے 3 سینئر ترین ججز میں سے ہی ایک چیف جسٹس ہوگا۔وزیر قانون نے کہاکہ چیف جسٹس کے تقرر کیلئے اپوزیشن اور حکومت کے ارکان پر مشتمل 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی 3 سینئر ترین ججز میں سے دوتہائی اکثریت سے ایک جج کے نام پر اتفاق کرکے سمری وزیراعظم کو بھجوائے گی جو وہ صدر کو بھجوائیں گے۔انہوں نے کہا کہ ماحولیات ایک بہت بڑا چیلنج ہے، ہم وہ آخری نسل ہیں جس نے کچھ نہ کیا تو یہ زمین ہمیں معاف نہیں کرے گی، شیری رحمان اور اٹارنی جنرل کی تجویز پر آرٹیکل 9 اے کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے تحت صحت مند اور پائیدار ماحول کا ہر شخص کا بینادی حق ہے، امید ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس حوالے سے آگے بڑھیں گی۔وزیر قانون نے کہاکہ صوبوں میں بھی آئینی بینچز کی گنجائش پیدا کی گئی ہے اور ان کا تقرر بھی جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کرے گا مگر صوبائی خودمختاری کو مقدم رکھا جائیگا، انہوں نے کہاکہ اس ضمن میں سینیٹر کامران مرتضیٰ نے بھی اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شریعت عدالت کے سود سے متعلق فیصلے پر 5 شقیں بھی اس میں شامل کی گئی ہیں۔اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر علی ظفر نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ آئین قوم کو اکٹھا کرتا ہے لوگوں کو جدا نہیں کرتا، اگر آئین لوگوں کی رضامندی اور اتفاق رائے سے نہیں بنتا تو وہ آئین اپنی موت ہی مرجائے گا، اتفاق رائے کے بغیر ہونے والی آئینی ترمیم قوم کو 20 سے 25 سال پیچھے لے جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آمرانہ دور میں مسلط کی گئی آئینی ترامیم نے ملک کو بہت بڑا نقصان پہنچایا، ہمارے کچھے مغوی ساتھیوں کو آئینی ترمیم کے لیے ایوان میں پیش کیا جائے گا جو آج زبردستی یا کسی اور وجہ سے ووٹ دیں گے۔انہوںنے کہاکہ لوگوں کو زبردستی، زد و کوب کرکے اور اغوا کرنے کے بعد ووٹنگ کروانا اتفاق رائے نہیں ہے، جس طریقے سے آئینی ترمیم کی جارہی ہے یہ نہ صرف جرم ہے بلکہ مذہبی اقدار کے بھی خلاف ہے۔سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ آج آئینی ترمیم میں اگر ہمارے اراکین کو استعمال کیا جاتا ہے تو ہماری پارلیمانی کمیٹی میں آرٹیکل 63 اے کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کیا گیا تھا کہ ہم کسی قسم کی آئینی ترمیم کا حصہ نہیں بنیں گے اور اس دستاویز پر ہمارے سارے سینیٹرز نے دستخط بھی کیے ہیں، اگر ان میں سے کوئی بھی ووٹنگ کرتا ہے تو اس کا ووٹ نہ گنا جائے۔انہوں نے ایوان کو بتایا کہ حکومت کے تیار کردہ پہلے مسودے میں تقریباًً 80 کے قریب ترامیم تھیں جس کا مقصد ہمارے بنیادی حقوق کو سلب کرنا تھا، آرٹیکل 8 میں ترمیم کے تحت اگر کسی کو اٹھا لیا جاتا تو وہ کسی عدالت میں نہیں جاسکتا تھا، اس شق کو جے یو آئی سربراہ نے کالے ناگ سے تشبیہ دی تھی۔بیرسٹر علی ظفر نے کہاکہ آرٹیکل 199 میں ترامیم کے ذریعے ہائی کورٹ کے کئی حقوق ختم کیے جارہے تھے، آئینی عدالت بنانے کا مقصد اپنے من پسند ججز کو تعینات کرکے اپنی مرضی کے فیصلے کروانا تھا۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں ہمیں بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی، ہم یہ کیسے مان لیتے کہ ایک آئینی ترمیم ہورہی ہے اور ہمیں عمران خان سے ملاقات نہیں کرنے دی جارہی، مولانا فضل الرحمٰن نے ملاقات کے حوالے سے کردار ادا کیا۔
انہوںنے کہاکہ اس قانون سازی کا حصہ نہ بننے کی متعدد وجوہات ہیں، ہمیں بانی پی ٹی آئی سے مشاورت کا موقع نہیں دیا گیا، موجودہ مسودے میں کچھ شقیں ایسی ہیں جو جمہوریت پر بہت بڑا دھبہ ہیں اور اس میں بہت سنگین نقص ہیں جو ہمیں مستقبل میں ناقابل تلافی نقصان پہنچائیں گی جنہیں تبدیل کرنا ناممکن ہوجائیگا۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ موجودہ مسودے میں بیشتر نکات حکومتی کے حق میں ہیں، اس عمل کے ذریعے حکومت اپنے مرضی کے جج تعینات کرے گی۔سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ موجودہ آئینی مسودے میں ججز کی سنیارٹی کے حساب سے تعیناتی کے قواعد و ضوابط نہیں دیئے گئے، آئینی ترمیم کے ذریعے بہت سے معاملات ایسے ہوں گے جن کے حوالے سے یہ طے کرنا مشکل ہوگا کہ وہ کس عدالت میں بھیجیں جائیں گے، ہم اس عمل کا حصہ نہیں بنیں گے، آئین کو توڑنے سے بچانے کے لیے مولانا فضل الرحمٰن کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی پارلیمنٹری لیڈر سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ پی ٹی آئی پارلیمنٹری کمیٹی میں کوئی ترمیمی شق پیش نہیں کی۔
انہوں نے کہا بار بار سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ یہ ترمیم کیوں کی جا رہی ہے، کہا جا رہا ہے کہ یہ سب سیاسی مقاصد کے لیے ہو رہا ہے، پیپلز پارٹی نے 1973 کا آئین دیا، پھر 18ویں ترمیم کے ذریعے وفاق کو بچانے کا منصوبہ دیا، آج جو ہم کرنے جا رہے ہیں، یہ کوئی حملہ نہیں ہے جیسا کہ بار بار کہا جا رہا ہے، اس سلسلے میں بلاول بھٹو نے متحرک قیادت کی اور جگہ جگہ جا کر اس کی وکالت کی، اپنا مؤقف پیش کیا۔انہوںنے کہاکہ جب پارلیمان اپنا حق مانگے تو کہا جاتا ہے کہ آپ سیاسی مقاصد کیلئے یہ کر رہے ہیں، سیاست کوئی گندہ لفظ نہیں ہے، ہم فخر سے یہ سیاست کرتے ہیں، صرف گاڑی میں بیٹھ کر یہاں نہیں پہنچ جاتے، بہت سے لوگ قربانیاں دے کر یہاں پہنچتے ہیں، تو کیا ہمیں حق نہیں ہے کہ اپنے حقوق کے لیے شفاف انداز میں قانون سازی کریں۔سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ بار بار کہا جا رہا ہے کہ ہم سالے سانپ کے سامنے بین نہیں بجاتے، ہم پیپلز پارٹی سے ہیں، ہم اسے وہیں ختم کرتے ہیں، تعمیری بات کریں، ملک کے حالات دیکھیں، آپ نے اس کو توڑنا یا جوڑنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ آئین سازی میں پہل کی ہے، آج جو ہم کرنے جارہے ہیں، یہ کوئی حملہ نہیں ہے، سول سوسائٹی کے ہر ایکٹر سے ہم نے بات سنی، ان کی آواز سنی گئی، ہم پرفیکٹ نہیں ہیں، لیکن ہم نے پوری کوشش کی ہے۔انہوںنے کہاکہ بلاول بھٹو نے سیاسی میچورٹی دکھائی ہے، وفاق کی پوری زنجیر پیپلزپارٹی کا آئین رہاہے، ان حالات میں بھی صوبوں کے حالات سلب ہوتیہیں، سیاست دان عوام کیسامنے کوشش کرتیہیں۔سینیٹر شیری رحمن نے کہا کہ آئینی ترامیم میں کون سا حملہ اور کون سا ناگ ہے؟ ہمیں تو نظر نہیں آتا، پارلیمانی کمیٹی میں پی ٹی آئی کو اپنی گزارشات پیش کرنی چاہئے تھی، دنیا میں ججز تعین کرتیہوئے کہ کس کوبنچز میں لینا ہے۔عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما سینیٹر ایمل ولی خان نے کہا کہ آئینی ترمیم کے ذریعے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار جیسے ججوں کا راستہ روکا گیا ہے، ملک کو ان کے جیسے نہیں بلکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جیسے ججز کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ پی ٹی آئی والے بیرسٹر گوہر کو چیئرمین نہیں مانتے، بانی چیئرمین پی ٹی آئی کی رٹ لگاتے ہیں ، بیرسٹر گوہر کو تو انہوں نے خود چیئرمین پی ٹی آئی منتخب کیا ہے۔ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما سینیٹر فیصل سبزواری نے کہا کہ ہم سے پوچھا جاتا ہے ترمیم میں عوام کی بہتری کیا ہے؟ عدالتوں سے جلد انصاف کی فراہمی شروع ہو یہ عوام کی بہتری ہے، آئینی ترامیم اس لیے ہیں کہ عدلیہ اور انصاف کا نظام مزید بہتر ہو، جوڈیشری عام آدمی کے مسائل دیکھے گی تو یہ بہتری ہے، آئینی اصلاحات، ترامیم کرنا پارلیمان کا اختیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئینی ترامیم میں تمام سیاسی جماعتوں کی طرح ہم نے بھی حصہ ڈالا، اسپیشل کمیٹی تمام جماعتوں کو ان ترامیم پرلانے کیلئے کام جاری رکھے گی، عوام کے مقدمات کئی کئی سال تک عدالتوں میں چلتے رہتے ہیں، فعال عدالتوں کی اصلاحات میں جانا بہترین عمل ہے، یہاں لوگوں کے ایک ایک کیس کو دس دس سال لگ جاتے ہیں، کوئی معروف رہنما بات کرے تو صبح سوموٹو ہو جاتے ہیں۔بل کی منظوری کے بعد ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے نائب وزیراعظم سینیٹر اسحٰق ڈار نے کہا کہ آج ایک تاریخی دن ہے، آج میثاق جمہوریت کا ایجنڈا مکمل ہوگیا۔انہوں نے کہا کہ خصوصی کمیٹی میں عامر ڈوگر نے بھی آئینی ترامیم کی متفقہ منظوری دی، آئینی ترامیم کسی کا ذاتی ایجنڈا نہیں ہے۔بعد ازاںسینیٹ کا اجلاس منگل 22 اکتوبر کی شام 4 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔