اسلام آباد ( مانیٹرنگ ڈیسک ) آرمی کی ہائی کمان کی جانب سے اس قسم کی سخت زبان میں بیان شاید ہی کبھی جاری کیا گیا ہو جیسا آئی ایس پی آر کا بدھ کو جاری ہونے والا بیان ہے۔ روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی خبر کے مطابق اگرچہ پریس ریلیز کے یہ الفاظ تو نہیں لیکن محسوس ایسا ہوتا ہے کہ عمران خان کو یہ پیغام دیا گیا ۔۔۔ نہ تو ہم بھولیں گے اور نہ ہی معاف کریں گے۔
فارمیشن کمانڈروں کی تین روزہ کانفرنس کے بعد جو پریس ریلیز جاری کیا گیا ہے وہ دوٹوک طور پر واضح کرتا ہے کہ فوج نہ تو 9 مئی کا سیاہ دن بھولے گی اور نہ ہی اس واقعے میں ملوث کسی بھی شخص کو معاف کرے گی خواہ وہ منصوبہ بندی کرنے والا ہو، حوصلہ افزائی کرنے والا ہو یا حملہ کرنے والا ہو۔
ملٹری کمانڈروں نے یہ بھی پیغام دیا ہے کہ وہ 9 مئی کےحملوں میں ملوث افراد کو بچانے کی کوششوں کو برداشت نہیں کریں گے۔ ٹھیک انہوں نے جو الفاظ استعمال کیے وہ یہ ہیں کہ ’’ فورم نے اس عزم کا اظہار کیا کہ کسی بھی حلقے کی جانب سے معاندانہ قوتوں کے غلط عزائم کو نتیجہ خیز شکست دینے کے عمل میں رکاوٹ اور دشواریاں پیدا کرنے کی کوششوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا‘‘۔
بدھ کی رات کو ایک ٹی وی کے ٹاک شو میں ایک صحافی نے اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عدلیہ میں عمران خان کے سہولیتاروں کے لیے پیغام ہے۔ فوج ان لوگوں کے ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کرنے پر کمپرومائز کرنے کے لیے تیار نہیں ہے جنہوں نے اس کی تنصیبات، عمارتوں اور علامتوں وغیرہ پر حملے کیے۔
اسی طرح نہ تو کوئی پروپیگنڈہ، نہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مہم سے کوئی ایسا’’ پردہ کھینچا ‘‘جاسکتا ہے جس سے ان افراد کے ’’گھناؤنے چہرے‘‘ چھپ سکیں جو اس عمل میں ملوث تھے نہ ہی ان مجرموں کو سزا سے بچایا جاسکتا ہے۔
پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت بشمول عمران خان کو جس چیز سے اب سنگین طور پر خطرہ ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ 9 مئی کے حملوں کے ’’ منصوبہ سازوں‘‘ اور ’’ ماسٹر مائنڈ‘‘ کا وقت پورا ہوتا نظر آرہا ہے۔
آئی ایس پی آر کے پریس ریلیز میں متنبہ کیا گیا ہے کہ ’’ اس امر پر مزید زور دیا جاتا ہے کہ حملہ آوروں اور انہیں اکسانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی شروع ہوچکی ہے اور اب قانون کا پھندا ان منصوبہ سازوں اور ماسٹر مائنڈز کے خلاف سخت کرنیکا وقت ہے جنہوں نے ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت پر مبنی اور سیاسی بغاوت کی تاکہ وہ ملک میں افراتفری تخلیق کرنے کے اپنے مذموم عزائم حاصل کرسکیں۔‘‘
موجودہ حکومت کے چند سینئر وزرا پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ چیئر مین پی ٹی آئی عمران خان پر آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایاجاسکتا ہے کیونکہ انہوں نے ہی مبینہ طور پر 9 مئی کے حملوں کی منصوبہ بندی کی تھی۔ وزیراعظم شہباز شریف بھی ایک سے زائد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ عمران خان نے 9 مئی کی افراتفری کے لیے اپنے حامیوں کو اکسایا تھا۔
وزیراعظم کے آفس سے اپنی سبکدوشی کے بعد عمران خان نے آرمی کو اپنا دشمن بنانے کی غلطی کی تھی اور ادارے کے خلاف اور اس اعلیٰ ترین فوجی قیادت کے خلاف ہر قسم کے الزامات لگائے اور سوشل میڈیا پر ادارے اور اس کی اعلیٰ کمان کے خلاف بے شمار مہمیں چلنے کی اجازت دی۔
زیادہ سنگین بات یہ ہے کہ خان نے 9 مئی کو پاکستان آرمی کے خلاف حملوں کے نتائج کا غلط حساب لگایا اور انہیں مس جج کیا۔ انہوں نے حملوں کی مذمت سے احتراز کیا، الزام دوسروں پر لگانے کی کوشش کی اور سازشی تھیوریز لے آئے اور پھر سے آرمی اور اس کے چیف کے خلاف حملے شروع کردیئے۔
9 مئی کے فوری بعد سب نے یہ اندازہ لگانا شروع کردیا تھا کہ عمران خان کی سیاست ختم ہوگئی ہے کم از کم آئندہ چند سال کے لیے تو ختم ہوگئی ہے لیکن 9 مئی کے بعد آرمی چیف اور ملٹری کے خلاف ان کے الزامات اور بیانات نے تو گویا ان کے سیاسی مستقبل پر مہر لگادی ہے۔
وہ پہلے ہی اپنی پارٹی کے درجنوں رہنماؤں سے محروم ہوچکے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے تازہ ترین بیان کے بعد وہ مزید کھونے کے لیے تیار ہیں۔ عمران خان اب اپنے تمام بیرونی کنکشنز استعمال کررہے ہیں اور پاکستان و پاکستانی آرمی پر امریکی دباؤ کو دعوت دے رہے ہیں تاکہ انہیں اس صورتحال سے نکالا جاسکے جو خود ان کے اپنے کاموں کی وجہ سے انہیں درپیش ہے۔ان کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ جس قسم کی پابندیاں چاہ رہے ہیں اور ان کی پارٹی کے ارکان جس قسم کا دباؤ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں وہ بھی ان کے خلاف جارہی ہیں۔