پنجاب حکومت نے 18فیصد اضافے سے2653ارب روپے کے حجم کاٹیکس فری بجٹ پیش کر دیا، بے گھر افراد اور سرکاری ملازمین کے لئے بھی بڑی خوشخبری

14  جون‬‮  2021

لاہور( این این آئی)پنجاب حکومت نے آئندہ مالی سال 2021-22کے لئے رواں مالی سال کے مقابلے میں18فیصد اضافے سے2653ارب روپے کے حجم کاٹیکس فری بجٹ ایوان میں پیش کر دیا ،حکومت نے کورونا وباء کے دوران مختلف سروسز کو ٹیکس شرح میں دی گئی چھوٹ بر قرار رکھنے اور مزید دس سروسز پر ٹیکس کی شرح

میں کمی کرنے کی تجویز دی ہے ،سرکاری ملازمین کی تنخواہوں ، پنشنرز کی پنشن میں 10 فیصد اضافے ،گریڈ 1 سے 19 تک کے ساڑھے 7 لاکھ ملازمین کے لیے 25 فیصد سپیشل الائونس کی تجویز دی ہے ، وصولی کا ہدف5,829ارب روپے متوقع ہے جس سے این ایف سی ایوارڈ کے تحت پنجاب کو1,684ارب روپے منتقل کیے جائیں گے جو رواں مالی سال کے مقابلہ میں18فیصد زیادہ ہوں گے جبکہ صوبائی محصولات کے لیے405ارب روپے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جو رواں مالی سال کے مقابلے میں28 فیصد زیادہ ہے ،اپوزیشن کی جانب سے صوبائی وزیر خزانہ کی تقریر کے آغاز سے اختتام تک احتجاج کیا گیا اور بعد ازاں اسمبلی احاطے میں بھی احتجاج کیا گیا ، وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدا ر بھی بجٹ پیش کئے جانے کے موقع پر ایوان میں موجود رہے۔پنجاب اسمبلی کا اجلاس مقررہ وقت کی بجائے2گھنٹے 29منٹ کی تاخیر سے سپیکر چوہدری پرویز الٰہی کی صدارت میں شرو ع ہوا ۔ سپیکر کی اجازت سے وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے آئندہ مالی سال کے لئے بجٹ تقریر کا آغاز کیا ہی تھاکہ اپوزیشن اراکین اپنی نشستوں پرکھڑے ہو کر نعرے بازی شروع کر دی ۔وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے اپنی بجٹ تقریر میں کہا کہ تمام تعریفیں مخصوص ہیں اللہ رب العزت اور نبی کریم ؐ کی پاک ذات کے

لیے جو تمام خزانوں کے مالک ہیں۔بیشک کہ یہ انہی کا کرم ہے کہ میں اس مقدس ایوان میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے چوتھے بجٹ اور پنجاب اسمبلی کی نئی عمارت میں پہلی تقریر کا اعزاز حاصل کر رہا ہوں ۔ پنجاب اسمبلی کی اس نئی عمارت کے 16سال سے زیر التوا ء منصوبے کی تکمیل کا سہرا بلاشبہ اسپیکر صاحب آپ کے

سر ہے جس کے لیے میں آپ کو قائد ایوان اور تمام اراکین اسمبلی کی جانب سے مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلی عثمان بزدار کی قیادت میں ملکی تاریخ کے سب سے بڑے مالی بحران اور بد ترین وبا کا مقابلہ کرتے ہوئے معاشی ترقی کی نئی راہوں پر گامزن ہے جس کی منزل

عوامی خوشحالی اور صوبے کی یکساں ترقی ہے ۔پنجاب حکومت کا نئے مالی سال کا بجٹ حقیقی معنوں میں تحریک انصاف کے منشور کے عین مطابق اور عوامی امنگوں کا ترجمان ہے ۔لیکن اس سے قبل کے میں معزز ایوان کو بجٹ کی تفصیلات سے آگاہ کروں میں انھیں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ آج سے تین سال قبل جب پاکستان کی

عوام نے وزیر اعظم عمران خان پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے تحریک انصاف کو ووٹ دیاملک تاریخ کے بد ترین مالی بحران سے دوچار تھا۔ مالی و تجارتی خسارے ،بڑھتے ہوئے گردشی قرضے او ر گرتے ہوئے معاشی اشارئیے سابقہ حکومت کی ناقص پالیسیوںاور ان سے جنم لینے والی بدعنوانیوں کی تصدیق کر رہے تھے ۔پنجاب

سپیڈ کی زیر قیادت بہترین کارکردگی کی سند وصول کرنے والا صوبہ 56ارب روپے کے واجب الادا چیکس، 41ارب روپے کے اور ڈرافٹس اور8,000سے زائد نامکمل سکیموں کے ساتھ نئی حکومت کا منتظر تھا۔ وسائل کا بیشتر حصہ نمائشی منصوبوں کی نظر ہو چکا تھا۔ قرضوں سے کھڑے کیے گئے انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیے

صحت اور تعلیم کے شعبوں کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا تھا ۔ پیداواری شعبہ پر کی جانے والی سرمایہ کاری بھی برائے نام تھی۔ نئی حکومت کو درپیش چیلنجز میں سر فہرست سوشل سیکٹر کی بحالی،معاشی ترقی اور وسائل کی منصفانہ تقسیم تھی ۔ان تمام مسائل سے نمٹنے کے دو ہی راستے تھے پہلا راستہ سیاسی سرمائے کی قربانی کا تھا

اور دوسرا عوامی سرمائے کی ۔انہوں نے کہا کہ مجھے فخر ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت نے پہلے راستے کا انتخاب کیا اور مالی پالیسیوں کی اصلاح کی راہ اختیار کی۔ ناقص منصوبوں کو ختم کر کے وسائل کے موثر استعمال پر توجہ مرکوز کی ۔نئی سکیموں کی گنجائش پیدا کرنے کے لیے جاری اخراجات پر کنٹرول اور وسائل میں اضافے

کی تدابیر کی گئیں۔اس سے قبل کے یہ اصلاحات معاشی ترقی کی راہ ہموار کرتیں کوویڈ کے اچانک حملے نے معاشی منظر نامے کویکسر تبدیل کر دیا۔بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک بھی کوویڈکے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئے ۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اس وبا کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔ وباء کے دوران پاکستان کی حکمت عملی

پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنی ۔ ہم نہ صرف اپنی شرح اموات پر کنٹرول میں کامیاب رہے بلکہ اپنے معاشی استحکام کو بھی یقینی بنایا ۔اس وقت جب دنیا بھر کے ممالک سماجی و معاشی سرگرمیاں معطل کیے ہوئے تھے وزیر اعظم عمران خان اپنے ملک کے غریب عوام کے روزگار کی بحالی کے لیے کوشاں تھے۔ وفاقی حکومت کی

جانب سے مستحق خاندانوں میں راشن اور امدادی رقوم تقسیم کی جا رہی تھیں ۔پنجاب واحد صوبہ تھا جس نے ان مشکل حالات میں عوام کا ساتھ دیا اور کوویڈ سے بحالی کے لیے 106ارب روپے کا پیکج متعارف کروایا جس کے تحت کاروباری طبقہ کو روزگار کی بحالی کے لیے56ارب روپے کا تاریخی ٹیکس ریلیف دیا گیا۔ حکومت کی

جانب سے عوام پر کی گئی یہ سرمایہ کاری رائیگاں نہیں گئی ۔وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے کہاکہ میرا ایمان ہے کہ یہ امدادی پیکج سے مستفید ہونے والے لاکھوں خاندانوں کی دعائیں ہی تھیں جو آج معاشی ترقی کے تمام اشارئیے بہتری کی جانب گامزن ہیںپاکستان اکنامک سروے کی حالیہ رپورٹ کے مطابق جی ڈی پی کی شرح

میں اضافے کا تخمینہ 3.94 فیصد لگایاگیا ہے جو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے لگائے گئے تخمینے سے زیادہ ہے ۔ زرعی، صنعتی اور سروسز سیکٹر ز کی ترقی میں پنجاب کا مرکزی کردار ہے۔رواں مالی سال کے اختتام پر فارن ریمینٹس 29ارب ڈالر اور برآمدات25ارب ڈالر کو پہنچ چکی ہوں گی، یہ تمام اعدادو شمار اس بات کا ثبوت

ہیں کہ ملک میںمعاشی ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بحیثیت صوبائی وزیر خزانہ میں یہاںیہ بتاتے ہوئے فخر محسوس کر رہا ہوں کہ پنجاب میں کورونا وباء کی موجودگی 56ارب روپے کے ٹیکس ریلیف پیکج اور مشکل معاشی صورتحال کے باوجود صوبائی محصولات کی مد میں نمایا ں بہتری آئی۔ روا ں مالی

سال میں صوبائی محصولات کا ہدف 317ارب روپے تھا جس کے مقابلے میں 359ارب روپے اکٹھے کر لئے جائیں گے ۔ یہ اضافہ 13.1فیصد بنتا ہے۔اس طرح کے غیر معمولی معاشی حالات میں صوبائی محصولات میں اس قدر اضافہ کو ئی معمولی بات نہیں ہے۔25سے زائد سرو سز سیکٹرز میں شرح ٹیکس کم کرنے کے باوجودپنجاب

ریو نیو اتھارٹی نے رواں سال اپنی تاریخ کا سب سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کیا جو گزشتہ سال کی نسبت42فیصد زیادہ ہوگا۔ان غیر یقینی حالات میں پاکستان کی کسی بھی ریو نیو اتھارٹی کی یہ بہترین کارکردگی ہے۔انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ کا مجموعی حجم 2,653ارب روپے تجویز کیا جا رہا ہے جو پچھلے مالی سال سے

18فیصد زیادہ ہے۔ آئندہ مالی سال میں وفاقی محصولات کی وصولی کا ہدف5,829ارب روپے متوقع ہے جس سے این ایف سی ایوارڈ کے تحت پنجاب کو1,684ارب روپے منتقل کیے جائیں گے جو رواں مالی سال کے مقابلہ میں18فیصد زیادہ ہوں گے جبکہ صوبائی محصولات کے لیے405ارب روپے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جو رواں

مالی سال کے مقابلے میں28 فیصد زیادہ ہے ۔ بجٹ میں جاری اخراجات کا تخمینہ1,428ارب روپے گایا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ مجھے انتہائی خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ میں آج اس معزز ایوان کے سامنے آئندہ مالی سال کے لئے ایک تاریخ ساز ترقیاتی پروگرام کا اعلان کر رہا ہوں۔صوبہ پنجاب کے ترقیاتی پروگرام کے لئے 560

ارب کے ریکارڈ فنڈز مختص کئے جا رہے ہیں۔ ترقیاتی بجٹ میںایک سال میں66 فیصد کا یہ غیر معمولی اضافہ بلاشبہ ہماری ترقیاتی ترجیحات کا آئینہ دار ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہمار ا یہ ترقیاتی پروگرام صوبے کی ترقی، معیشت کے استحکام اور عوام کی خوشحالی کا ضامن ہوگا اور اس کے ثمرات پنجاب کے کونے کونے تک پہنچیں

گے۔آئندہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں سوشل سیکٹر یعنی تعلیم اور صحت کے لیے205ارب 50کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں جو رواں مالی سال کے مقابلہ میں110فیصد زیادہ ہیں۔انفراسٹر کچر ڈویلپمنٹ کے لیے 145ارب40کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں جو رواں مالی سال کے مقابلہ میں87 فیصد زیادہ ہیں۔

سپیشل پروگرامزکے لیے 91ارب 41کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں جو رواں مالی سال کے مقابلہ میں92فیصد زیادہ ہیں۔ترقیاتی بجٹ میں اکنامک گروتھ کے لیے پیداوری شعبوں جن میں صنعت ، زراعت، لائیوسٹاک،ٹوورازم،جنگلات وغیرہ شامل ہیں57ارب 90 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں جو رواں مالی سال

کے مقابلہ میں234 فیصد زیادہ ہیں۔انہوں نے بتایا کہ بجٹ2021-22میں سالانہ ترقیاتی پروگرام کی تیاری ،معاشی شرح نمو یعنی سماجی ترقی اور علاقائی مساوات کے تناظر میں کی گئی ہے جو پاکستان تحریک انصاف کے منشور کی بنیاد ہیں۔ترقیاتی پروگرام کے نمایاں منصوبہ جات میں ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ پروگرام، یونیورسل ہیلتھ انشورنس پروگرام،سڑکوں کی بحالی،مدر اینڈ چاہلڈ ہیلتھ کیئر ہسپتال،سکولوں کی اپ گریڈیشن،معاشی ترقی کے

خصوصی مراعات، ورک فورس کی تیاری ، اینوائرمنٹ اینڈ گرین پاکستان اور پبلک ہائوسنگ سکیم شامل ہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ تحریک انصاف کے معاشی ترقی کے ماڈل میں سوشل سیکٹر میں بہتری اور پورے صوبے میں یکساں ترقی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اس لیے معاشی ترقی کے لیے پیداواری شعبوں میں حکومتی اقدامات سے کے ذکر سے پہلے میں ان دو ترجیحات پر بات کرنا ضروری سمجھتا

ہوں ۔کرونا کہ دوران جہاں محکمہ صحت پر بوجھ آیا وہاں ہمیں اس شعبہ کے مسائل اور درکار وسائل سے آگاہی کا بھی موقع ملا۔ جو تجربات ہمیں اس دوران ہوئے وہ ڈیٹا شاید کوئی فزیبلیٹی رپورٹ بھی فراہم نا کر پاتی۔ صحت ہر ایک کی ضرورت ہے پنجاب نے پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ ملکر ویکسینین سینٹر بنائے تو ان سے ہرطبقے نے استفادہ کیا وہ لوگ جو عام حالات میں سرکاری ہسپتالوں پر اعتبار نہیں کرتے وہ بھی ان سینٹرز سے استفادہ کر رہے

ہیں جن کو دیکھ کر ویکسینیشن سے متعلق تعصبات رکھنے والا کم تعلیم یافتہ طبقہ بھی ترغیب ھاصل کر رہا ہے ۔ اس دوران ہم نے یہ بھی دیکھا کہ صرف ہسپتالوں کی تعداد بڑھانے سے صحت کے مسائل کم نہیں ہوں گے بلکہ علاج کی استطاعت بھی ضروری ہے ۔ان حقائق کی روشی میں حکومت پنجاب صوبے کی تاریخ کا سب سے پہلا میگا منصوبہ مکمل کرنے جس کا ڈی جی خان اور ساہیوال سے آغاز کیا جا چکا ہے ۔ منصوبہ کے تحت پنجاب کی

100فیصد آبادی یعنی 11کرو ڑ عوام کو سرکاری و غیرسرکاری ہسپتالوں سے علاج کے لیے80ارب روپے کی ہیلتھ انشورنس مہیا کی جا رہی ہے جو صحت سب کے لیے ہمارے نعرے کی تعبیر بنے گی ۔ آئندہ مالی سال میںصحت کے شعبے کے لئے مجموعی طو رپر 370ارب روپے مختص کئے جارہے ہیں۔ شعبہ صحت کے ترقیاتی پروگرام کا مجموعی بجٹ96ارب روپے ہے جو رواں مالی سال کے مقابلے میں182فیصد زائد ہے ۔ہماری حکومت

نے شعبہ صحت کے انتظامی امور میں روایتی روش سے ہٹ کر عالمی معیار سے مطابقت رکھنے والی حکمت عملی اپنائی ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی دور اندیش قیادت میں ہمارا سب سے بڑا ور اہم ترین منصوبہ 80ارب روپے کی لاگت سے شروع ہونے والا یونیورسل ہیلتھ انشورنس پروگرام ہے جس کے تحت پنجاب کی سو فیصد آبادی کو مفت اور معیاری علاج کی سہولیات دستیاب ہوں گی ۔ ہیلتھ انشورنس

کارڈ کے ذریعے ہر شخص صوبے کے کسی بھی سرکاری یا منظور شدہ پرائیویٹ ہسپتال سے علاج کرا سکے گا ۔ اس پروگرام کے ذریعے 31دسمبر2021ء تک پنجاب کی گیارہ کروڑ آبادی کی ہیلتھ انشورنس کی جائے گی جس کا باقاعدہ آغاز ساہیوال اور ڈی جی خان ڈویژن سے کیا جا چکا ہے ، مجھے یقین ہے کہ ہیلتھ انشورنس کا یہ انقلاب آفرین پروگرام صوبے میں جدید ہیلتھ کیئر سسٹم کے قیام میں اہم سنگ میل ہوگا ، یہ صرف ہیلتھ کارڈ کی ہی فراہمی

نہیںدرحقیقت یہ ایک نیا ہیلتھ سسٹم رائج ہونے جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر کے شعبے کے لئے اگلے مالی سال میں 78ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ تجویز کیا جارہا ہ ے۔ اہم جاری منصوبوں میں گوجرانوالہ ، ساہیوال اور ڈی جی خان کے ڈی ایچ کیو ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن ، انسٹی ٹیوٹ آف یورالوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن راولپنڈی، نشتر ٹو ہسپتال ملتان، رحیم یار خان ہسپتال، مدر اینڈ چائلڈ بلاک سر گنگا رام ، اپ گریڈیشن آف ریڈیالوجی

/سپیشلٹیز ڈیپارٹمنٹس ، سروسز ہسپتال لاہور، ڈی جی خان انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالویجی، تھیلیسیمیا یونٹ اینڈ بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹر بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال کی اپ گریڈیشن شامل ہے جن کی جلد تکمیل کے لئے خاطر خواہ فنڈز مہیا کئے جارہے ہیں ۔ آئندہ ترقیاتی پروگرام میں چلڈرن ہسپتال لاہور میں پیڈز برن سنٹر کا قیام ، ایک ہزار بستروں پر مشتمل جنرل ہسپتال لاہور کا قیام، 200بستروں پر مشتمل مدر اینڈ چائلڈ ہپستال ملتان اور پیٹ سکین اینڈ

سائیکلوٹرون مشین کی نشر ہسپتال ملتان میں فراہمی شامل ہیںجن کے لئے مطلوبہ فنڈز فرام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ ترقیاتی پروگرام میں شامل ایک انتہائی اہم اقدام پنجاب کے پانچ اضلاع راجن پور، لیہ، اٹک، بہاولنگر اور سیالکوٹ میں چوبیس ارب کی لاگت سے جدید ترین مادر اینڈ چائلڈ ہسپتالوں کا قیام ہے ۔ یہ منصوبے وفاقی او رصوبائی حکومت کے مالی اشتراک سے شروع کئے جارہے ہیں۔ صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے

کہا کہ محکمہ پرائمریاینڈ سکینڈری ہیلتھ کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے 19ارب روپے مختص کئے جانے کی تجویز ہے ، آئندہ سال پنجاب کے 119ٹی چی کیو ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن اور ری ویمپنگ کے لئے 6ارب روپے کا ایک جامع پروگرام شروع کیا جارہا ہے ، مزید براں چنیوٹ، حافظ آباد اور چکوال میں 16ارب60کروڑ روپے کی لاگت سے جدید ترین ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے ۔ پریونٹوہیلتھ کیئر پروگرام کے

تحت ٹی بی ، ایڈز اور ہیپائائٹس جیسے موذی امراض پر قابو پانے کے لئے 11ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی جارہی ہے ۔ مجموعی طو رپر صوبے میں 36بی ایچ یوز کو اپ گریڈ کر کے آر ایچ سیز بنا دیا جائے گا ، پنجاب میں کورونا ویکسی نیشن کے لئے 10ارب روپے کا خصوی بلاک رکھے جانے کی تجویز ہے ۔ سرکاری ہسپتالوں میں ادویات کی فرامی کے لئے 35ارب 25کروڑ روپے کی خطیر رقم مہیا کی جارہی ہے پنجاب کے 14شہروں

میں 3ارب50کروڑ روپے کی لاگت سے جدید ٹراما سنٹرز قائم کئے جارہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ تعلیم ہماری حکومت کی اولین ترجیحات میں سے ایک میں سے ایک ہے لہٰذا اس سال بھی پچھلے سالوں کی طرح ہم نے تعلیم کے شعبے میں فنڈز میں نمایاں اضافہ کیا ہے ۔ آئندہ سال تعلیم کا مجموعی بجٹ 442ارب روپے رکھا گا ہے جو موجودہ سال سے 51روپے زائد ہے ۔ترقیاتی اخراجات کے لئے 54ارب22کروڑ روپے جبکہ جاری اخراجات کے

لئے 388ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ۔ سکول سے باہر بچوں کا واپس سکولوں میں داخلہ او ربچوں اور خصوصاً بچیوں کی سکولوں تک رسائی ایک اہم مسئلہ ہے ۔ ایکسس یا رسائی کے اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے انصاف سکول اپ گریڈیشن پروگرام جیسے انقلابی منصوبے کا آغاز کیا جارہا ہے جس کے تحت آئندہ سال پنجاب کے 25فیصد پرائمری سکول یعنی 8ہزار 360پرائمری سکولوں کو ایلمنٹری سکولوں کا درجہ دیا جائے گا ۔ ان اپ

گریڈ سکولوں میں تقریاً40فیصد سکول جنوبی پنجاب میں ہے ۔ سکول اپ گریڈ کی مد میں آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 6ارب50کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے ۔ ایک انداز کے مطابق اس پروگرام کے تحت 20لکھ سے زائد بچے سکولوں میں واپس آ کر اپنا تعلیمی سفر جاری رکھ سکیں گے۔ پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن اور پی ای آئی ایم اے کے تحت سکولوں میں33لاکھ بچے حکومت کی امداد سے تعلیم حاصل کریں گے جس کے لئے23ارب

روپے مختص کئے جارہے ہیں۔ہائر ایجوکیشن کی اہمیت کے مد نظر آئندہ بجٹ میں 15ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز مختص کئے جارہے ہیں جو کہ پچھلے سال کی نسبت 285فیصد زیادہ ہیں۔ حکومت پنجاب ہر ضلع میں طالبعلموں کی اعلیٰ تعلیم تک رسائی کو بڑھانے کے لئے یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لا رہی ہے ۔ اب تک چھ نئی یونیورسٹیوں کا قیام عمل میں لایا جا چکا ہے ۔ مزید برااں پنجاب کے آٹھ اضلاع اٹک ، گوجرانوالہ، راجن پور،

پاکپتن، حافظ آباد، بھکر، لیہ اور سیالکوٹ میں یونیورسٹیوں کے قیام کی منظوری دیدی گئی ہے جبکہ آئندہ مالی سال میں سات نئی یونیورسٹیاں قائم کرنے کی تجویز ہے جو بہاولنگر، ٹوبہ ٹیک سنگھ، مظفر گڑھ، ڈی جی خان، قصور اور شیخوپورہ میں قائم کی جائیں گی۔ ان یونیورسٹیوں کے قیام سے پنجاب کے طلباء و طالبات کو اعلیٰ تعلیم کے بہترین مواقع میسر آئیں گے۔ پنجاب میں بین الاقوامی معیار کی انجینئرنگ یونیورسٹی کا خواب طویل عرصہ سے

شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا ، اس سال سیالکوٹ میں عالمی معیار کی ایک انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی 17ارب روپے کی مجموعی لاگت سے تعمیر کی جائے گی جو کہ انجینئرنگ او رٹیکنیکل ایجو کیشن کے میدان میں انتہائی اہم سنگ میل ثابت ہو گی۔ علاوہ ازیں اس سال کے بجٹ میں پنجاب بھر میں86نئے کالجزقائم کرنے کی تجویز ہے ۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کی خصوصی توجہ سے رواں سال ذہین اور مستحق طالبعلموں کے لئے رحمت اللعالمین ﷺ

سکالر شپس کا آغاز کر دیا گیا ہے اور اس مد میں 83کروڑ40لاکھ روپے کے فنڈز مختص کئے گئے ہیں جس سے سالانہ 15ہزار طلبہ و طالبات مستفید ہو سکیں گے ۔ یہ تمام اقدامات پنجاب میں نالج اکنامی کے فروغ میں اہم کردار ادا کریںگے۔ صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے کہا کہ پنجاب ایک مدت سے وسائل کی غیر متوازن تقسیم کے پیدا کردہ مسائل سے دوچار رہا ۔ نظر انداز کئے جانے والے اضلاع شکوک اور تعصبات کا شکار تھے ۔

وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے جنوبی پنجاب کے مابین واضح لکیر کھینچ دی تھی ۔ تحریک انصاف کی حکومت جنوبی پنجاب کے ساتھ ماضی میں ہونے والی نا انصافی اور حق تلفی کے ازالے کے لئے اپنے وعدے کے عین مطابق عملی اقدامات کر رہی ہے اور خطے کی تین بنیادی محرومیوں کو دور کیا جارہا ہے ۔ صوبے کے ترقیاتی وسائل میں جنوبی پنجاب کو اس کے جائز حصے کا نہ ملنا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کے مالی سال 2021-

22کا یہ بجٹ ایک نئی تاریخ رقم کرے گا کیونکہ اس مقدس ایوان میں جنوبی پنجاب ساتھ برسوں سے کی جانے والی نمبروں کی ہیر ا پھیری کو ہمیشہ کے لئے دفن کیا جارہا ہے ۔ صوبے کی تارٗخ میں پہلی مرتبہ جنوبی نجاب کا الگ ترقیاتی پروگرام مرتب کیا گیا ہے آنے والے وقتوں میں سائوتھ پنجاب اے ڈی پی کی یہ کتاب جس کو اب بجٹ کی دستاویزات میں شامل کیا گیا ہے ۔ حقیقی معنوں میں جنوبی پنجاب کے حقوق کے تحفظ کی ضامن ہو گی ۔ آئندہ

بجٹ میں جنوبی پنجاب کے لئے 189ارب روپے مختص کئے جارہے ہیں جو کہ پنجاب کے سالانہ ترقیاتی پروگرام کا 34فصد ہیں ہم نے تہیہ کر رکھا ہے کہ جنوبی پنجاب کے حصے کا پیسہ جنوبی پنجاب میں ہی خرچ ہوگا۔ صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ جنوبی پنجاب کے عوام کی دوسری محرومی انتظامی اداروں تک آسان رسائی کا نہ ہونا تھا جس کے لئے ملتان اور بہاولپور میں سیکرٹریٹ قائم کر دیا گیا ہے اور اس کی عمارتوں کی تعمیر کی ذمہ

داری آئی ڈی اے پی کو سونپ دی گئی ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ اس عمل سے جنوبی پنجاب وسیب کا رہائشی چاہے وہ سائل ہو یا کوئی سرکاری ملازم دنوں کو انکے مسائل کا حل ان کی دہلیز پر ملے گا ، ہمیں اس بات کا بخوبی علم ہے کہ جنوبی پنجاب میں پسماندگی کی ایک بڑی وجہ انتظامی شعبوں میں خطے کے عوام کی قلیل نمائندگی ہے جنوبی پنجاب کی اس تیسری بڑی محرومی کے ازالے کے لئے مثبت پیشرفت کی ارجہیے اور جلد ہی عوام کو

خوشخبری دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت ’’ سارا پنجاب ہمارا پنجاب ‘‘ کے نظیرے کے تحت صوبے کے تمام اضلاع کی ترقیاتی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے وزیر اعلیٰ پنجاب کی ذاتی دلچسپی کی بدولت آئندہ مالی سال میں 360 ارب روے کی لاگت سے ایک عہد ساز ڈسٹرکٹ ڈویلپمنٹ پروگرام کا آغاز کر رہی ہے اس پروگرام کے تحت پنجاب کے تمام اضلاع میں ترقیاتی سکیموں کا جال بچھا دیا جائے گا ۔ اس پروگرام کے تحت

سڑکوں کی تعمیر و مرمت، فراہمی و نکاسی آب ،بنیادی تعلیم و صحت سے متعلقہ ترقیاتی کام کئے جائیں گے جس سے لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوگا اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے اس منصوبے کے لئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں99ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگلے مالی سال کے بجٹ میں لاہور کی مرکزی اور تجارتی اہمیت کے پیش نظر ترقیاتی منصوبوں کے لئے 28ارب30کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کی

جارہی ہے جس کے تحت شہر میں انفراسٹر اکچر کے بڑے پراجیکٹس شروع کئے جائیں گے۔لاہور میں اس وقت زیر تعمیر اہم منصوبوں میں شاہ کام چوک، گلاب دیوی ہسپتال انڈر پاس او رشیرانوالہ گیٹ اوور ہیڈ شامل ہیں۔ لاہور شہر میں پانی کی شدید قلت کو مد نظر رکھتے ہوئے سرفیس واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگایا جارہا ہے جس کے لئے آئندہ مالی سال میں ایک ارب پچاس کروڑ روپے سے زائد رقم مختص کئے جانے کی تجویز ہے ۔ لاہور شہر میں آخری

بڑ اجنرل ہسپتال1984ء میں تعمیر ہوا، ہماری حکومت اس سال ایک ہزار بستروں پر مشتمل جدید ترین ہسپتال کی تعمیر کا آغاز کرنے جارہی ہے جس سے لاہو شہر کے شہریوں کو علاج معالجے کی بہترین سہولتیں دستیاب ہوں گی۔صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے کہا کہ م لاہو رکو عالمی سطح کاجدید ترین شہر بنانے کا عزم رکھتے ہیں، لاہور کے مستقبل کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے راوی اربن پراجیکٹ اور سنٹرل بزنس

ڈویلپمنٹ جیسے فقید المثال منصوبے شروع کئے جارہے ہیں جن کی بدولت یہ تاریخی شہر آنے والے وقتوں میں اس خطے کا ترقی یافتہ ترین شہر بن جائیگا یہ منصوبے نہ صرف لاہور بلکہ پنجاب میں ترقی او رخوشحالی کے سنہر ی دور کا سنگ میل ہوں گے ، ایک اندازے کے مطابق صرف سنٹرل بزنس ڈسٹرکٹ کے قیام سے چھ ہزار روپے کی معاشی سر گرمیاں او رایک لاکھ سے زائد افراد کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔صوبائی وزیر خزانہ نے

کہا کہ پنجاب حکومت نے روا ں مالی سال میں کروبار کی بہالی اور ترقی کے لئے فراہم کردہ ٹیکس ریلیف کو آئندہ سال میں بھی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اس مقصد کے لئے آئندہ بجٹ میں پچاس ارب روپے سے زائد کی ٹیکس رعایتیں دی جارہی ہیں جس کے تحت بورڈ آف ریو نیو کی جانب سے ٹیکسوں کی مد میں اسٹامپ ڈیوٹی کی شرح کو 1فیصد پر بر قرار رکھا جائے گا، چالیس ارب روپے کی اس رعایت کا مقصد کنسٹرکشن کے شعبے میں

نئی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو گا ۔ اہوں نے کہا کہ رواں مالی سال میں جن 25سے زائد سروسز پر پنجاب سیلز ٹیکس کی شرح کو 16فیصد سے 5فیصد کیا گیا تھا ان کو آئندہ مالی سال میں بھی بر قرا رکھا جائیگا ۔ ان سروسز میں چھوٹے ہوٹلز او رگیسٹ ہائوسز، شادی ہال، لانز، پنڈال اور شامیانہ سروسز و کیٹرز، آئی ٹی سروسز، ٹور آپریٹرز جمز، پراپرٹی ڈیلرز، رینٹ اے کار سروس، کیبل ٹی و ی آپریٹرز، ٹریٹمنٹ آف ٹیکسائل اینڈ لیدر زرعی

اجناس سے متعلقہ کمیشن ایجنٹس، آڈیٹنگ،اکائونٹنگ اینڈ ٹیکس کنسلٹنسی سروسز، فوٹو گرافی اور پارکنگ سروسز شامل ہیں۔ اسی طرح آئندہ مالی سال میں دس مزید سروسز پر سیلز ٹیکس کو16فیصد سے کم کر 5فیصد کرنے کی تجاویز بھی پیش کی جارہی ہیں جن میں بیوٹی پارلرز،فیشن ڈیزائنرز، ہوم شیفس، آرکیٹکٹ، لانڈریز اور ڈرائی کلینرز، سپلائی آف مشنری، وئیر ہائوس، ڈریس ڈیزائنرز اور رینٹل بلڈوزرز وغیرہ شامل ہیں ۔ کال سینٹرز پر ٹیکس

کی شرح کو ساڑھے 19فیصد سے کم کر 16فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے ، رواں مالی سال میں ریسٹورنٹس کے لئے کیش ادائیگی پر ٹیکس کی شرح 16فیصد جبکہ بذریعہ کریڈٹ کارڈ یا ڈیبٹ کارڈ ادائیگی پر 5فصد کیا گیا تھا اس سے نہ صرف معیشت کو دستاویزی بنانے میںٰ مد دملی بلکہ عوام میں اس اقدام کو بہت سرایا گیا ، اگلے مالی سال کیلئے موبائل والٹ اور کیو آر کوڈ کے ذریعے ادائیگی پر بھی ٹیکس کی شرح 5فیصد کرنے کی تجویز دی گئی

ہے ۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے تحت رواں مالی سال کی طرح آئندہ مالی سال میں بھی پراپرٹی ٹیکس دو اقساط میں ادا کیا جا سکے گا ۔ پراپرٹی اور موٹر سائیکل وہیکل ٹیکس پر نافذ شدہ سرچارج پینٹلٹی کو آئندہ مالی سال کی صرف آخری دو سہ ماہیوں تک محدود کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ماحولیاتی آلودگی پر کنٹرول کے لئے الیکٹرک وہیکلز کی خریدو فروخت کی حوصلہ افزائی کے لئے رجسٹریشن

فیس اور ٹوکن فیس کی مد میں50اور 75فیصد تک چھوٹ دی جائے گی۔ انہوںنے کہا کہ معاشی ترقی کے لئے صنعت و تجار ت کے شعبہ کو مطلوبہ و مالی وسائل کی فراہمی انتہائی ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ ملک میں صنعت کے شعبہ کی ترقی کے لئے ہم آئندہ مالی سال کے ترقیاتی بجٹ میں چار گناہ اضافہ کر رہے ہیں جس کی وجہ سے اس شعبے کا بجٹ3ارب روپے سے بڑھا کر 12ارب روپے کیا جارہا ہے ۔ علاوہ ازیں آئندہ مالی سال میں

اضافی10ارب روپے کا پروگرام فار اکنامک سٹمیلوس اینڈ گروتھ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے ۔ علامہ اقبال انڈسٹریل اسٹیٹ فیصل آباد، بہاولپور اور سیالکوٹ میں انڈسٹریل اسٹیٹس او رقائد اعظم بزنس پارک شیخوپورہ جیسے اہم منصوبے تکمیل کے مراحل میں ہیں اور ان مقاصد کے لئے 3ارب3ارب 50کروڑروپے کے فنڈزمہیاکئے جا رہے ہیں تاکہ معاشی اور صنعتی سرگرمیوں کو فروغ دیا جاسکے ۔ایس ایم ای سیکٹر کے فروغ کے لئے گجرات

میں ایک ارب تیس کروڑ روپے کی لاگت سے سمال انڈسٹریل اسٹیٹ کا قیام بھی ہمارے ترقیاتی اقدامات میں شامل ہیں۔ اسی طرح سیالکوٹ میں ایک ارب ستر کروڑ روپے کی لاگت سے سرجیکل سٹی سیالکوٹ کے منصوبے کا آغاز کیا جارہا ہے ۔ سیالکوٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے تعاون سے پچاس کروڑ روپے کی لاگت سے سیالکوٹ ٹینزی زون کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے جس کے لئے آئندہ مالی سال میں پینتیس کروڑ روپے مختص

کئے جارہے ہیں ۔ دس ارب روپے کی مجموعی لاگت سے پنجاب روزگار پروگرام کے تحت آسان شرائط پر قرضے بھی فراہم کئے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی اس وقت ایک سنگین مسئلہ ہے ہم اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کو عام آدمی کی پہنچ میں رکھنے کے لئے مسلسل کوشاں ہیں ۔ اس ضمن میں سہولت بازاروں کا قیام حکومت پنجاب کی ایک خصوصی کاوش ہے ۔ اس وقت پنجاب کے مختلف اصلاع میں 362سہولت بازار کا م کر رہے ہیں

جو کہ عوام الناس کو معیاری او رسستی اشیائے ضروریہ ایک ہی چھت تلے فرام کر رہے ہیں۔ مزید یہ کہ ہم ان بازاروں کو مستقل بنیادوں پر قائم کرنے کے لئے ماڈل بازار اتھارٹی کا قیام عمل میں لارہے ہیں جس کے تحت پنجاب کے تمام بڑے شہروں میں ماڈل بازار تعمیر کئے ئیں گے جس کے لئے اگلے مالی سال میں ایک ارب پچاس کروڑ روپے کی رقم مختص کی جارہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پاکستان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہمارے

نوجوان ہیںجو ملک کی آبادی کا 65فیصد ہے ، موجودہ حکومت اس اثاثے کی اہمیت او رصلاحیت سے بخوبی آغاہ ہے ۔ نوجوانوں کو ملکی ترقی میں بھرپور کردار ادا کرنے کے مواقع فراہم کرنے کے لئے آئندہ املی سال میں ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے تعاون سے ایک اہم منصوبہ امپروونگ ورک فورس ریڈینس ان پنجاب کے نام سے شروع کیا جارہا ہے جس کے تحت 40ہزار طلبہ کی فنی تربیت کی جائے گی ۔ اس منصوبے کے لئے 17رب روپے کے فنڈز

مہیا کئے جائیں گے اس کے ساتھ ساتھ حکومت پنجاب نو ارب روپے کی لاگت سے سکلنگ یوتھ فار انکم جنریشن کا منصوبہ بھی شروع کر رہی ہے ۔ ہنر مند نوجوان پروگرام کے تحت نوجوانوں کی تربیت کا سلسلہ بھی آئندہ مالی سال میں جاری رہے گا ۔ وزیر خزانہ مخدوم ہاشم جواں بخت نے کہا کہ معاشی ترقی میں مواصلات کے جدید نظام کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، اسی لئے حکومت پنجاب جدید اور معیاری روڈ نیٹ ورک کی تعمیر کو اہمیت دے

رہی ہے ۔ ہم آئندہ مالی سال سے 380ارب روپے لاگت کی سرکوں کی تعمیر، مرمت او رتوسیع کا ایک جامع پروگرام شروع کر رہے ہیں اس پروگرام کے تحت صوبے کے طول و عرض میں تیرہ ہزار کلو میٹر لمبائی کی 1769ترقیاتی سکیمیں مکمل کی جائیں گی، آئندہ مالی سال میں اس مقصد کے لئے 58ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی جارہی ہے ۔ یہاں یہ بتانا انتہائی اہم ہے کہ ہماری مسلسل کاوشوں سے وفاقی حکومت صوبے میں جدید

شاہراہوں کی تعمیر و توسیع کے ایک وسیع پروگرام کے لئے مالی وسائل مہیا کرنے پر آمادہ ہو گئی ہے اس پروگرام کے تحت صوبے میں 73ارب کی مالیتس سے 776کلو میٹر لمبی13اہم شاہراہوں کی تعمیر و توسیع کا کام شروع کیا جارہا ہے جس کے لئے آئندہ مالی سال میں 33ارب روپے کے فنڈز مختص کئے گئے ہیں ۔ اس کے علاوہ 8ارب روپے کی مالیت سے وزیر اعلیٰ روڈ ری ہیبلیٹیشن پروگرام کا آغاز کیا جارہا ہے جس کے تحت صوبے

کی خستہ حال سڑکوںتعمیر و بحالی کے کام مکمل کئے جائیں گے ۔ آئندہ سال صوبے میں سڑکوں کی تعمیر وتوسیع اور بحالی کے منصوبوں کیلئے مجموعی طور پر 105ارب روپے کی ریکارڈ رقم خرچ کی جائے گی ۔ اپنا گھر ہر خاندان کا خواب ہوتا ہے ،موجود دور میں کم آمدن والے گھرانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ذاتی گھر کاحصول ہے جس کیلئے وہ ساری زندگی محنت کرتے ہیں ۔ تحریک انصاف کی قیادت پہلے دن سے کم وسیلہ خاندانوں کے اس مسئلے

کے حل کیلئے کوشاں ہے آج مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہے کہ پنجا ب حکومت آئندہ مالی سال میں پیری اربن ہائوسنگ سکیم کے تحت ترقیاتی کام جاری رکھے گی ، اس منصوبے کے تحت اوسطا ایک گھر 14لاکھ روپے کی قیمت پر میسر ہوگا ، انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کیلئے مجموعی طور پر حکومت پنجاب 3ارب روپے کے فنڈز مہیا کررہی ہے اسی طرح نیا پاکستان ہائوسنگ پروگرام کے تحت hud/pheکے محکمے کو ایک ارب

روپے کے فنڈز فراہم کئے جارہے ہیں جس سے پرائیویٹ ڈویلپرز کے تعاون سے وضع کردہ طریقہ کار کے تحت لوگوں کیلئے گھروں کی تعمیر ممکن ہوسکے گی۔ نیا پاکستان اسکیم کے تحتے 35,000اپارٹمنٹس بنائے جائیں گے ۔ اس کے علاوہ پنجاب کے شہروں میں جدید انفرسٹرکچر اورشہری سہولیات کی فراہمی کیلئے 30ارب سے زائد کے فنڈز دئیے جائیں گے ۔پینے کا صاف پانی بنیادی ضرورت ہے ،ہماری حکومت ورلڈ بینک کی معاونت سے

86ارب روپے کی لاگت سے 16پسماندہ ترین تحصیلوں میں ایک جامع منصوبے کا آغاز کررہی ہے جس کے تحت 100فیصد دیہی آبادی کو پینے کے صاف پانی ، سولڈ ویسٹ مینجمنٹ اورنکاسی آباب کی سہولیات فراہم کی جائیں گی ۔ آئندہ مالی سال میں اس پروگرام کیلئے 4ارب روپے مختص کئے جارہے ہیں ۔ اسی طرح ماحولیاتی آلودگی کے تدارک کیلئے ویسٹ واٹر ٹریٹ پلانٹ کی تنصیب کا ایک مربوط پروگرام شروع کیا جارہا ہے جس کے تحت 5بڑے

شہر جس میں لاہور اور فیصل آباد شامل ہیں ، یہ پلانٹس لگا جائیں گے ۔ اس مقصد کے لئے بجٹ 2012,22میں 5ارب روپے سے زائد فنڈز مختص کئے گئے ہیں ۔یہ معزز ایوان آگاہ ہے کہ پنجاب حکومت جامع حکمت عملی کے تحت پنجاب آب پاک اتھارٹی تشکیل دی ہے جو دیہی اور دور دراز علاقوں کو صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائے گی ۔اللہ تعالیٰ کے فضل کرم سے اس سال پنجاب کے کھیتوں نے خوب سنا اگلا ہے ، گندم کی پیدوار میں8فیصد ، چاول

میں28فیصد اورکماد میں31فیصد کا ریکارڈ اضافہ ہوا ہے اورپہلی بارکسانوں کو فصل کی بہترین اوربروقت ادائیگی ہوئی ، معاشی تری کے اس تلسل کو برقرار رکھنے کیلئے زرعی شعبہ میں سرمایہ کاری وقت کی اہم ضرورت ہے اگلے مالی سال میں محکمہ زراعت کے ترقیاتی بجٹ کو 306فیصد کے تاریخی اضافے کے ساتھ 7ارب 75کروڑ سے بڑھا کر 31ارب 50کروڑ روپے کرنے کی تجویز ہے ، آئندہ مالی سا ل میں

تاریخی وزیراعظم عمران خان اوروزیراعلیٰ کی ہدایت پر زراعت کے شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے 100ارب سے زائد مالیت کا انتہائی جامع ایگری کلچر ٹرانسفورمیشن پلان شامل کیا گیا ہے اس پلان کے تحت زرعی شعبے میںبنیادی اصلاحات اور انقلابی اقدامات متعارف کروائے جارہے ہیں، علاوہ ازیں اس پروگرام کے تحت کسان کارڈ کا اجراا کردیاگیا ہے جس کے ذریعے آئندہ مالی سال کے لئے زرعی سبسڈیز کی مد میں4ارب

روپے مختص کئے گئے ہیں مزید برآںفارم مکینیزائیشن میں جدت کے فروغ کیلئے 28ارب روپے کی لاگت کے منصوبے کے آغاز کی تجوز دی جارہی ہے ، آئندہ مالی سال میں 10ارب روپے کی لاگت سے گندم ، چاول ، مکئی اورکماد پر تحقیق کیلئے 4سینٹر ز آف ایکسیلینس بنانے کی تجویز ہے ایگرکلچرل ایکسٹیشن میں نجی شعبے کی خدمات کو بروئے کار لانے کیلئے تین سال محیط اہم منصوبے کی مجموعی لاگت 18.5ارب روپے ہے جس کے

آغاز کیلئے آئندہ مالی سال میں 1ارب روپے مختص کئے جانے کی تجویز ہے اسی طرح نیشنل پروگرام برائے امپورمنٹ آف واٹر کورسزکیلئے 5ارب روپے رکھے جارہے ہیں ، کسان کی خوشحالی اور اس کی فصل کی پیدوار پر اٹھنے والے اخراجات میںکمی لانے کی خاطر کھاد،، بیج اور زرعی ادویات وغیرہ کی خریداری ، فصل ، بیمہ اورآسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی پر سبسڈی کو 5ارب 82کروڑ سے بڑھا کر 7ارب60کروڑ روپے کیا جار

ہا ہے ، وزیراعظم کی طرف سے فراہم کردہ کسان دوست زرعی پیکج کے ہی ثمرات ہیں کہ گندم چاول اورگنے کی پیدوار میں اپنے اہداف سے کہیں زیادہ اضافہ ریکارڈ کیاگیا ہے۔ پنجاب کی زرعی معیشت کیلئے آبپاشی کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا ، ہماری حکومت نے نہری نظام کو بہتری اور جدت کیلئے آئندہ مالی کیلئے مجموعی طور پر 55ارب روپے مختص کئے جارہے ہیں ، جبکہ ترقیاتی بجٹ میں 82فیصد کا اضافہ کر کے 31روپے کئے

جانے کی تجویز ہے جبکہ محکمہ آبپاشی کے ایم اینڈ آر کے بجٹ کی مد میں 9ارب روپے کے فنڈز فراہم کئے جانے کی تجویز ہے جو رواں مالی سال سے37فیصد زیادہ ہیں اوراس اقدام سے نہروں کی تعمیر و مرت کے عمل میںتیزی اوربہتری آئے گی جس سیٹ ٹیل کے کاشتکاروں کو بھی پانی کی فراہمی ممکن ہوسکے گی ۔ لائیو سٹااک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ کے لئے مجموعی طور پر 5ارب روپے کی رقم مختص کرنے کی تجویز دی ہے ، جس میں

جاری منصوبہ جات کیلئے 1ارب 58کروڑ کی رقم اورنئے منصوبوں کیلئے 3ارب42کروڑ روپے سے زائد کی رقم مختص کی جارہی ہے ،جانوروں کی صحت کے حوالے سے ڈویژن کی سطح پر ویٹرنری ہسپتالوں اورلیبارٹریوں کی اپ گریڈیشن کو منصوبہ شروع کیا جارہاہے جس کے لئے10کروڑ سے زائد رقم مختص کرنے کی تجویز ہے ، جانوروں کی نشونما کے حوالے سے کسانوں کے لئے 50فیسد سبسڈی پر سائلج مشین کی فراہمی کا

منصوبہ بھی لایا جارہا ہے جس کیلئے 32کروڑ سے زائد رقم رکھنے کی تجویز ہے ، شجرکاری کو فروغ دئیے بغیر بڑھتی ہوئی آلودگی اوراس کے نتیجے میں پیدا ہونیو الی بیماریوں پر قابو پانا ممکن نہیں ، چنانچہ حکومت پنجاب نے اس شعبے کیلئے مجموعی طور پر 4ارب روپے کی رقم مختص کرنے کی تجویز کی ہے ، جس کے تحت صوبہ بھر میںشجرکاری کے اقدمات کئے جائیں گے ، وزیراعظم کے ٹین بلین سونامی پروگرام کیلئے 2ارب

56کروڑ سے زائد رقم رکھنے کی تجویز ہے ، حکومت پنجاب نے زری ، صنعتی اورجنگلات کے شعبہ جات مے گرین ٹیکنالوجیز کو فروغ دینے کیلئے 5ارب روپے ک لاگت سے انوائر منٹ اینڈوومنٹ فنڈ کا قیام کردیاگیا ہے جو سرسبز پاکستان کا خواب پورا کرے گا ، جنگلی حیات کے تحفظ کیلئے آئندہ مالی سال کے لئے 1ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے وزیراعظم کے وژن کے مطابق ہیڈ بلو کی پر وائلڈ لائف ریزرو ، نمل لیک کی آرائش اورچیچہ

وطنی کی جنگلی حیات کافارم بنانے کا منصوبہ بھی ہماری آئندہ مالی سا کی ترقیاتی سرگرمیوں میںشامل ہے محکمہ ماہی پروری کیلئے 1ارب رروپے کی رقم مختص کرنے کی تجویز ہے ۔حکومت پنجاب وزیراعظم کے اسلامی فلاحی ریاست کے ویژن کو پایہ تکمیل تک پہچانے کیلئے کوشاں ہے ، غریبوں اورناداروں کی مالی امداد کیلئے لئے پی ایس پی اے کے تحت پنجاب احسان پروگرام پر عمل جاری ہے ، گزشتہ برس پنجاب ہیوم کیٹل پروجیکٹ 53ارب

روپے کی لاگت سے شروع کیا گیاتھا اس سال اس پراجیکٹ کا دائرہ کار جنوبی پنجاب کے 7اضلاع تک پھیلا جارہا ہے ، معذور افراد کو 10کرو ڑ سے اسسٹیو ڈیوائسز مہیا کی جائیں گی ، غریب خواتین کی آمد نی میں اضافے کیلئے 70کروڑروپے کی لاگت سے ونگزپروگرام کا آغاز کیا جارہاہے ۔ مزید برآں 50کروڑروپے کی لاگت سے سوشل پروٹیکشن فنڈ بھی قائم کیا جارہا ہے ۔ پہلے سے جاری پروگراموں کاتسلسل آئندہ مالی سال میںبھ برقرار رہے گا ،

مجموعی ور پر پنجاب احساس پروگرام کیلئے پچھلے سال کے 12ارب روپے کی نسبت اگلے مالی سال 18ارب روپے مختص کئے جارہے ہیں ۔ ہماری حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی معاشرے کے غریب ترین طبقات کیلئے پناہ گاہوں اورمسافر خانوں کے قیام کے اقدمات شروع کردئیے تھے اب تک مستقل اورعارضی پناہ گاہوں کی تعداد 94ہے جو معااشرے کے پسماندہ افراد کو معیاری اور باعزت خدمات مہیا کررہی ہیں، ان اقدامت کی

پذیرائی اورنتائج کو دیکھتے ہوئے اس فلاحی پروگرام کے تلسل کیلئے پنجاب پناہ گاہ اتھارٹی قائم کردی گئی ہے ۔ مالی سال 2021.22میںجھنگ ، ملتان اور ساہیوال میں پناہ گاہوں کی تعمیر ، نشے کے عادی افرادکی بحالی کے لئے فیصل آباد اور ملتان میںعلاج گاہ اوربحالی سنٹر کی تعمیر ہماری ترجیحات میں شامل ہیں ، اس کے علاوہ ڈی جی خان میں معذور افراد کیلئے نشیمن گھر اور ٹوبہ ٹیک سنگھ اور اٹک میں بچوں کیلئے ماڈل چلڈرن ہوم قائم کئے

جارہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت نے سیاحت کے شعبے کے فروٖغ کیلئے ایک مربوط پالیسی واضع کی ہے اور سیاحت کا ایک الگ محکمہ قائم کردیا ہے ۔ مالی سال 2021.22کے ترقیاتی پروگرام میں ایک ارب 25کروڑپے کا بجٹ سیاحت کیلئے تجویز کیا گیاہے ، جاری منصوبوں میں شامل درا وڑ فورٹ کی بحالی و مرمت اورچولستان میں سیاحتی سہولایت کی فراہمی ، دھراوی جھیل کی تعمیر کیلئے خاطرخواہ فنڈ ز مہیا کئے جارہے ہیں

، جبک ہ آئندہ مالی سال میں ہمار عزم ہے کہ لوگوں کو سیاحت کے بہترین مواقع مہیا کرنے کیلئے نئے سیاحتی مقامات کی نشاندہی اورپہلے سے موجودہ سیاحتی مقامات کی بحالی اور تحفظ کو یقینی بنایا جائے ۔ ان اقدامات میں نندنا فورٹ چکوال کا تحفظ و بحالی ، تونسہ بیراج ایکوٹورازم کلچر پارک ،سون ویلی ایڈونچر پارک ، ٹی ڈی سی پی انسٹی ٹیوٹ آف ٹوارزم اینڈ ہوٹل مینجمنٹ لاہوراور کوٹلی ستیاں میں سیاحتی سرگرمیوں کا فروغ شامل ہیں ، پنجاب

حکومت کی تجویز پر کوٹلی ستیاں اورمریز کے علاقے میں ٹوارزم ہائی دے کی تعمیر کا منصوبہ وفاقی ترقیاتی پروگرام میں شامل کرلیاگیاہے ، حکومت پنجاب نے خصوصی طور پر مذہبی سیاحت فروغ کیلئے بھی آئندہ اقدمات کئے ہیں اوراس ضمن میں 2ارب روپے سے زائد فنڈ مہیا کئے جارہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی علمبردار ہے ہمارے ملک کی ترقی میں اقلیتی آبادی کا کردار تسلیم شدہے ، حکومت پنجاب

نے آئندہ مالی میں محکمہ انسانی حقوق واقلیتی امور کے ترقیاتی بجٹ 400فیصد اضافہ کر کے 2ارب 50کروڑروپے کے فنڈز مختص کئے ہیں ۔اقلیتی آبادی والے علاقوں بشمول یوحنا آباد لاہور،وارث پورہ فیصل آباد اورکانجو محلہ رحیم یارخان وغیرہ میںفراہمی ونکاسی آب اورسڑکوں کی تعمیر و مرمت کیلئے خصوصٰ طور پر ڈویلپمنٹ آف ماڈل لوکیلٹی کے نام سے سکیم شامل کی گئی ہے جس کیلئے 40کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں

اس کے علاوہ اقلیتی ہونہار و مستحق طلب علموں کیلئے 5کروڑ کے وظائف اور مستحق افراد کی مالی معاونت کیلئے 6کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں ۔ ہمیں سرکاری ملازمین کی مشکلات کا بخوبی احساس ہے رواں مالی سال میں کرونا کے سبب معیشت کی غیر یقینی صورت حال کے پیش نظر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اورپنشن کی مد میں کوئی اضافہ ممکن نہیں ہوسکا ۔ لیکن مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے دلی خوشی ہورہی ہے کہ اب چونکہ

معاشی حالات میں واضح بہتری آنا شروع ہوگئی ہے لہذا ہماری حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تمام سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10فیصد اضافہ کیاجائے ۔ تاہم گریڈ1سے گریڈ 19کے وہ 7لاکھ 21ہزار سے زائد سرکاری ملازمین جنہیں پہلے کسی قسم کا کوئی اضافی الائونس نہیںدیا گیا ان کی تنخواہوں میں سپیشل الائونس کی مدمیں مزید 25فیصد کااضافہ کیاجارہا ہے ۔اسی طرح ریٹائر ملامزین کی پنشن میں بھی10فیصد اضافہ کرنے کی

تجویز ہے ۔ میں اس معزز ایوان کو بھی بتاتا چلوں کی حکومت پنشن کے نظام میں اصلاحات اوربنیادی تبدیلیاں متعارف کروانے کیلئے بھی اقدامات کررہی ہے جس سے آئندہ آنے والے برسوں میں حکومت کے پنشن کی مد میں ہونے والے اخراجات میں قابل ذخر کمی واقع ہوگی ۔ انہوں نے کہا کہ ملک کا دیہاڑی دار اور مزدورطبقہ ہمیشہ سے ہمارے دل کے قریب رہا ہے اس لئے یہ ممکن نہیں کہ ہم انھیں نظرانداز کریں۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں ہمارے

مزدور بھائیوں کی کم سے کم اجرت 17,500روپے ماہانہ سے بڑھا کر 20000روپے ماہانہ مقرر کی جارہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اپنی تقریر کے اختتام پر میں ان تمام سرکاری و غیرسرکاری اداروں، ہسپتال کے اہلکاروں تجارتی مراکز اور صنعتوں میں فرائض سرانجام دینے والوں اور سب سے بڑھ کے صوبے کے عوام کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنھوں نے کوویڈ کے دوران حکومت کے ساتھ بھر پور تعاون کرتے ہوئے معیشت کے پہیہ کو رواں دواں

رکھا اور ہمیں اس قابل بنایا کہ ہم معاشرے کے کمزور طبقہ کی داد رسی کر سکیں ۔اس کے ساتھ ساتھ میں آپ سب معزز اراکین خصوصا حزب اختلاف سے درخواست کرتا ہوںمعاشی ترقی کے جو ثمرات حاصل ہونا شروع ہوئے ہیں ان کو قومی جذبہ اتحاد و یک جہتی کے ساتھ موثر طور پر اپنے صوبے کے عوام تک منتقل کرنے میں ہمارا ساتھ دیںاورہر قسم کے ذاتی تعصبات سے بالاتر ہو کر عوام کی خدمت کو اولین ترجیح دیں۔

موضوعات:



کالم



شاہ ایران کے محلات


ہم نے امام خمینی کے تین مرلے کے گھر کے بعد شاہ…

امام خمینی کے گھر میں

تہران کے مال آف ایران نے مجھے واقعی متاثر کیا…

تہران میں تین دن

تہران مشہد سے 900کلو میٹر کے فاصلے پر ہے لہٰذا…

مشہد میں دو دن (آخری حصہ)

ہم اس کے بعد حرم امام رضاؒ کی طرف نکل گئے‘ حضرت…

مشہد میں دو دن (دوم)

فردوسی کی شہرت جب محمود غزنوی تک پہنچی تو اس نے…

مشہد میں دو دن

ایران کے سفر کی اصل تحریک حسین باقری ہیں‘ یہ…

ہم کرنا ہی نہیں چاہتے

وہ وجے تنوار تھا‘ ذات کا گجر تھا‘ پیشہ پہلوانی…

ٹھیکیدار

یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس…

رضوانہ بھی ایمان بن سکتی تھی

یہ کہانی جولائی 2023 ء میں رپورٹ ہوئی تھی‘ آپ…

ہم مرنے کا انتظار کیوں کرتے ہیں؟

’’میں صحافی کیسے بن گیا؟‘‘ میں جب بھی اس سوال…

فواد چودھری کا قصور

فواد چودھری ہماری سیاست کے ایک طلسماتی کردار…