اسلام آباد(آن لائن)سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس میں سپریم کورٹ نے کہاکہ جس کی چھ نشستیں بنتی ہوں اسے دو ملیں تو نتیجہ کیا ہو گا؟ کیا کم نشستیں ملنے پر متناسب نمائندگی کے اصول کی خلاف ورزی نہیں ہو گی؟ ،پھر متناسب نمائندگی کہاں گئی،آئین بنانے والوں کی متناسب نمائندگی سے متعلق دانشمندی کہاں گئی،
میاں رضا ربانی نے کہا کہ یہ ریاضی کا سوال نہیں اور نہ ہی اے بی یا پھر سی کی بات ہے یہ سینیٹ ہے یہ وفاق کا معاملہ ہے ۔پیر کے روز چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ۔ پیپلزپارٹی کے وکیل میاں رضا ربانی نے دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ آرٹیکل 226 دوبارہ اسمبلی کے ایجنڈے پر آچکا ہے،ایوان میں آرٹیکل 226 میں ترمیم کا بل زیر التواء ہے،آرٹیکل 226 کے سینیٹ پر اطلاق نہ ہونے کا آرڈیننس بھی آچکا ہے،1962 کا آئین صدارتی نظام کے حوالے سے تھا،1962 کے آئین میں بھی خفیہ ووٹنگ کی شق شامل تھی،آرٹیکل 10 کے تحت کیس ہے ہر فریق کا حق ہے کہ اسے سنا جائے،مسنگ پرسنز سے اس آئینی حق سے محروم ہیں؟یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ڈیپ سٹیٹ کی رسائی بیلٹ پیپر تک ہوتی ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایسا کوئی معاملہ عدالت کے سامنے نہیں ہے، بیلٹ پیپر پولنگ سٹیشن پر ہی سیل کیے جاتے ہیں۔جس پر میاں رضا ربانی نے کہا کہ سیل کیے جانے کے
باوجود ڈیپ سٹیٹ کی ان تک رسائی ہوتی ہے یہ آپ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں،اس بنا پر بھی ووٹ قابلِ شناخت نہیں ہونا چاہیے،وزیراعظم اور وزرا اعلیٰ کا دفتر لیڈر آف دی ہاؤس سمجھا جاتا ہے،خفیہ انتخابات کی کہاں شرط ہے،خفیہ انتخابات ایک مختلف معاملہ ہے،انتخابات کے
مختلف سیٹ ہوتے ہیں،ایک سیٹ وزیراعظم و وزرائے اعلیٰ کا انتخاب ہے،ایک سیٹ چیئرمین سینٹ و سپیکرز کے انتخابات سے متعلق ہے،ان انتخابات کے لیے خفیہ کا طریقہ کار موجود ہے،سینٹ انتخابات میں پارٹی پالیسی سے بالاتر بھی ووٹ ڈالا جاتا ہے،اس لیے آئین نے آرٹیکل 226
کے تحت تحفظ دیا ہے،کیونکہ سینٹ وفاق کا ہاؤس ہے،یہ وفاقی یونٹس کا تحفظ کرتا ہے،سینٹ سیاسی جماعتوں کی نہیں بلکہ وفاق کی نمائندگی کرتا ہے،سیاسی جماعتوں کے فورم محتلف ہیں،قومی اسمبلی و صوبائی اسمبلیاں براہ راست سیاسی جماعتوں کے فورم ہیں،سینیٹ کا تصور یکسر مختلف ہے۔
قومی اسمبلی آبادی کی اکثریت کی نمائندہ ہوتی ہے،سینٹ میں وفاقی یونٹس کی متناسب نمائندگی ہوتی ہے،سینٹ وفاقی یونٹس کے حقوق کا محافظ ہے،سینٹ انتخابات میں ممبر اسمبلی کی نااہلی سے متعلق 63 (اے) کی کوئی بار نہیں،سینٹ سے متعلق حفیظ پیرزادہ کی متناسب
نمائندگی سے متعلق تقریر قومی اسمبلی سے متعلق ہے،سینیٹ سے متعلق متناسب نمایندگی کی نہیں بلکہ قومی اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کی بات کی۔چیف جسٹس نے اس موقع پر میاں رضا ربانی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی دلیل یہ ہے کہ متناسب نمائندگی صرف ووٹ
گننے سے متعلق ہے،اگر سیاسی پارٹیاں تقسیم ہیں تو صوبائی اسمبلی کی سیٹوں کی سینیٹ میں کیسے نمائندگی ہوگی۔میاں رضا ربانی نے اس موقع پر بتایا کہ ہوسکتا ہے کہ کسی پارٹی کی آپ کو صحیح متناسب نمائندگی نظر آئے،پنجاب صوبے میں پی ٹی آئی بڑی سیاسی جماعت ہے۔
مجھے صحیح تعداد کا نہیں ہوتا،شاید پانچ یا چھے سیٹیں زیادہ ہوں۔جسٹس عمر عطا بندیال نے اس موقع پر ریمارکس دئیے کہ پی ٹی آئی نے پنجاب میں اتحاد بھی کیا ہے،سیاسی اتحاد خفیہ نہیں ہوتے، جس سسٹم کو جاری رکھنا چاہتے ہیں وہ انفرادی ہیروازم کو فروغ دیتا ہے،جمہوریت
کا تقاضا یہ ہے کہ پارٹی سسٹم مضبوط ہو،جب تک طریقہ کار میں تبدیلی نہیں لائیں گے جمہوریت کی مضبوطی خواب رہے گی، ہم چاہتے ہیں کہ آپ اس حوالے سے بھی دلائل دیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قانون کا اطلاق کہاں ہوتا ہے،پارٹی اے کی چھے سیٹیں بنتی ہیں
اور اسے دو ملی ہیں تو تب،پھر متناسب نمائندگی کہاں گئی،آئین بنانے والوں کی متناسب نمائندگی سے متعلق دانشمندی کہاں گئی۔جس پر پیپلز پارٹی کے وکیل رضا ربانی نے موقف اپنایا کہ یہ ریاضی کا سوال نہیں اور نہ یہ اے، بی یا پھر سی کی بات ہے،یہ سینیٹ ہے، یہ وفاق کا معاملہ ہے۔بعد ازاں معاملہ کی سماعت ایک دن کے لئے ملتوی کر دی گئی ۔