اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)قومی احتساب بیورو کے مالیاتی جرائم کے تفتیشی شعبے کے سابق ڈائریکٹر جنرل طلعت گھمن نے لندن ہائیکورٹ میں اپنے بیان میں کہاتھا کہ براڈ شیٹ ایل ایل سی کیلئے کام کرنے والے ادارے میٹرکس ریسرچرز انوسٹی گیٹرز نے نواز شریف سے متعلق
نیب کی اپنی رپورٹوں کو ری سائیکل کرکے اس میں کوئی نئی چیز شامل کئے بغیر اور سابق وزیر اعظم اور ان کی فیملی کے ارکان کے اثاثوں کا پتہ چلائے بغیر نیا بنا کر نیب کے سامنے پیش کیاتھا۔روزنامہ جنگ میں مرتضیٰ علی شاہ کی شائع خبر کے مطابق جولائی 2015 میں سر انتھونی ایوانز کے سامنے اپنے بیان میں طلعت گھمن نے کہاتھا کہ براڈشیٹ اثاثوں کاپتہ چلانے اور ان کے بارے میں تفتیش کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا اور اس نے نواز شریف اور ان کی فیملی کے ارکان کے اثاثوں کا پتہ چلانے کیلئے میٹرکس ریسرچ لمیٹڈ کی خدمات حاصل کی تھیں، لیکن اس کی رپورٹ میں دی گئی زیادہ تر معلومات نیب کے اپنے ریکارڈ سے ری سائیکل کیا گیاتھا اور اس میں نیا کچھ بھی شامل نہیں کیاگیاتھا۔ براڈشیٹ نے نواز شریف اور ان کی فیملی کے 8 ارکان کے اثاثوں کا سراغ لگانے کیلئے میٹرکس ریسرچ لمیٹیڈ کی خدمات مجموعی طورپر500,000 پونڈ پر حاصل کی تھیں، لیکن شریف فیملی کے بارے میں جمع کردہ معلومات نیب کو متاثر نہیں
کرسکیں کیونکہ نیب ایسے شواہد چاہتاتھا جس پر ناجائز دولت اور بدعملیوں پر کارروائی کی جاسکے۔جب براڈشیٹ نے پاکستان سے اس رپورٹ کیلئے 480,000 پونڈ کامطالبہ کیا تو نیب کے حکام نے اسے مسترد کردیا، گھمن نے اپنے بیان میں بتایا کہ نواز شریف دور کے
سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار پہلے ہی ہمیں اس طرح کی کافی معلومات فراہم کرچکے تھے اورنیب نے اسحاق ڈار اور شریف فیملی کے قریبی دیگر لوگوں کی فراہم کردہ اطلاعات کو استعمال بھی کیاتھا ،انھوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ میٹرکس کی رپورٹ میں نئی معلومات بتاکر شامل
کی جانے والی بیشتر معلومات کا عام لوگوں کوبھی پتہ تھا اور براڈ شیٹ نے اسے ری سائیکل کردیاتھا۔انھوں نے بتایا تھا کہ براڈشیٹ نہ تو ہمیں کوئی نئی بات بتارہاتھا اور نہ ہی پاکستان سے باہر چھپائے خفیہ اثاثے بازیاب کرانے کیلئے کچھ کررہاتھا ،انھوں نے بتایا کہ اگرچہ نیب نے
براڈشیٹ کو شریف فیملی کے بارے میں معلومات فراہم کی تھیں لیکن براڈ شیٹ نے ایسی بہت کم معلومات فراہم کیں جو نیب کیلئے نئی تھیں۔ہمارے پاس شریف فیملی کے پارک لین لندن کے اپارٹمنٹ سمیت پاکستان اور پاکستان سے باہر اثاثوں کے بارے میں علم تھا ۔اکتوبر1999 میں جب
جنرل سید امجد حسین نے انھیں نیب میں شمولیت کی دعوت دی اس وقت عسکری بینک کے جنرل منیجر کے طورپر خدمات انجام دے رہے تھے۔وہ 2004 تک نیب سے وابستہ رہے اور اثاثوں کی ریکوری یونٹ کے تحت نیب اور براڈشیٹ کی کارکردگی کے گواہ ہیں ۔تاہم انھوں نے براڈ شیٹ
کے ساتھ طے پانے والا معاہد ہ نہ تو تیار کیا تھا اور نہ ہی اس پر دستخط کئے تھے۔ انھوں نے 2003 کے آخر میں جنرل منیر حفیظ سے کہاتھا کہ براڈشیٹ نااہل ہے اور وہ وہ کام نہیں کرسکتا جو پاکستان چاہتا ہے ۔طلعت گھمن چرچل ہوٹل لندن میں جنرل منیر حفیظ ،طاہر نواز اور پی جی اے مرزا
کی براڈشیٹ کے ساتھ اختلاف طے کرنے اور اثاثوں کا پتہ چلانے کے حوالے سے ہونے والی ملاقات میں شامل تھے ،اس ملاقات میں پاکستانی وفد نے براڈ شیٹ کو بتایا تھا کہ معاملات پر پیش رفت نہ ہونے کی وجہ سے کس قدر مایوس ہیں ،اور مشرف انتظامیہ عوامی دبائو کے
تحت اثاثوں کاپتہ چلاکر کس طرح واپس لائے گی۔ پاکستانی وفد نے براڈشیٹ کے حکام کو بتایاتھا کہ انھوں نے کوئی نئی معلومات فراہم نہیں کیں اورکوئی ٹھوس اور بامعنی پیش رفت نہیں ہوئی ،اس ملاقات میں جنرل منیر حفیظ نے نواز شریف اور ان کی فیملی کے خلاف تفتیش جاری رکھنے
کیلئے براڈ شیٹ کیلئے ایک اور پاور آف اٹارنی پر دستخط کئے تھے۔براڈشیٹ کوفکر تھی کہ نواز شریف سعودی عرب چلے گئے ہیں اور وہ پاکستان کو بھاری رقم ادا کرسکتے ہیں،جس پر پاکستانی وفد نے براڈشیٹ سے کہاتھا کہ کوئی ڈیل نہیں ہورہی ہے اور نواز شریف کے خلاف مقدمات واپس نہیں لئے جائیں گے،طلعت گھمن کے مطابق اس ملاقات میں یہ طے پایاتھا کہ براڈشیٹ 30 دن کے اندر پیش رفت کی ایک مکمل رپورٹ پیش کرے گا لیکن نیب کو ایسا کچھ نہیں ملا۔