اسلام آباد(آن لائن) چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت ایوان بالا اجلاس، حکومت نے تمام قرضوں کی تفصیلات قوم کے سامنے رکھنے کا اعلان، حکومت کو تمام تر سزا این آر اوز کی مد میں دینے پڑ گئے ہیں،براڈ شیٹ کیا تھا وہ بھی ایک این آر او تھا اوراس کا جرمانہ بھی حکومت نے ادا کیا،چینی،آٹا اور پر انکوائری ہو چکی
اور اس کا حساب بھی دیا جائے گا،،اپوزیشن نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ بہتر سال میں تیس ہزار ارب روپے قرضہ جبکہ اب 45ہزار ارب روپے قرضہ پہنچ گیا،قرضہ کمیشن بسم اللہ ہمارا حساب کرے اور آڑھائی سال کا بھی ہونا چاہیے،ایل این جی،پٹرول،بی آرٹی،بلین ٹری،مالم جبہ سینکنڈلز نیب کو نظر کیون نہیں آتے،سارے غلط کام ہم نے کیے ہیں،سینٹر شیریں رحمن نے کہا کہ ملک میں گیس کی لوڈشیڈنگ کے باعث ملک مفلوج ہو کر رہ گیا ہے،اس پر وزیروں کا جواب دینے کی بجائے الٹا کرپشن اور دیگر گفتگو میں الجھایا جاتا ہے،این آر او ہم نہیں لے رہے بلکہ حکومت سوالوں کے جواب نہ دیکر این آر او مانگ رہی ہے،ملک میں مہنگائی کا راج ہے،35روپے کلو آٹا اور 55روپے کلو چینی تھی اب آٹا 80 اور چینی سو روپے کلو ہو گئی،بجلی،پٹرول کی قیمتیں کہاں پہنچ گئی ہیں،ایک پٹرول انکوائری بھی ہوئی تھی اس کا کیا بنا یا اس پر بھی این آر او ہو چکا ہے،اربوں روپے کی پٹرول سمگلنگ ہو چکی ناقص پٹرول ملک میں دندناتا پھر رہا ہے،مدہوش حکومت خاموشی سے سب کچھ وزیروں اور کابینہ کو این آر او دیئے جا رہے ہیں،ہم تو احتساب سے نہیں بھاگ رہے بلکہ حکومت خود بھاگے جا رہی ہے،نیب کو اس کرپشن سے کوئی تعلق نہیں ہے،قرضہ حکومت ہم پر دبا? ڈالے جار ہی ہے جو خود لیے ہیں ان کا حساب کو
ن دے گا،ہم پر نیب گردی اور حکومت کو کھلی چھٹی کیوں دی گئی،کووڈ ویکسین کے لیے حکومت کیوں خامو ش ہے پہلے تو ستر ملین ڈالر رکھے گئے تھے اب کہا ں رکھے گئے ہیں،35ٹریلین روپے موجودہ حکومت نے قرضہ لیا ہے،اس کا بھی کمیشن بنا کر حساب دیا جائے،جو حکومت چالیس فیصد سے زائد قرضہ چڑھا رہی ہے وہ اس
پیسہ کا کیا کر رہی ہے،کرپشن کا دیکھیں تو مالم جبہ،بلین ٹری،بی آ رٹی کے سیکنڈل،ایل این جی،پٹرول انکوائری،کا جواب نہیں مل سکا ہے،عوام کے پیسے ہیں جس کا حساب لینا پڑے گا،سینٹر پرویز رشید نے کہا کہ مجھے بارہ سال ہو چکے اس ایوان میں لیکن موجودہ حکومت کا طریقہ واردات عجیب ہے اس پر چیئرمین سینٹ نے
کہا کہ اپ غلط بات کر رہے ہیں،پرویز رشید نے کہا کہ یہ ہتھکنڈا بھی ہے،یہ طریقہ کبھی نہیں تھا کہ ہماری بات کو کا?نٹر کرنے کے لیے ساتھ ہی حکومت کو بھی بلوالیتے ہیں،وفاقی وزیر حماد اظہر نے کہا کہ پنجاب میں آٹا کی بوری 850اور سندھ میں 1100روپے ہے اس کا جواب کون دے گا،ملک میں آٹا کا مسلۂ تھا پھر صوبوں نے بارہ
لاکھ آٹا لیا اور سندھ نے لیکر ریلیز بھی نہ کیا،اور جس کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں،چینی پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ گنے کی قیمت بڑھے تو چینی کی قیمت بڑھا دی گئی،اگر چینی کی قمیت فکس نہیں تو پھر گنے کی قیمت بھی کسی صورت فکس نہیں کریں گے،قرضوں پر بات ہوئی ہے اس پر جو قرضے اتارے ہیں،مسلم لیگ کے دور میں
جو قرضے بڑھے ہیں وہ اب رک گئے ہیں چار ارب ڈالر کے قرضے مزید نہیں بڑھیں گے،پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے قرضوں کا سود اتنا تھا کہ جس کے لیے قرضے لینے پڑتے ہیں،براڈ شیٹ پر کہا کہ یہ این آر او کی قیمت ہے جو کہ پاکستان کو ادا کرنی پڑ رہی ہے،مساوی نے کہا کہ این آر او نواز شریف نے کیا اور مساوی نے
نہیں جس پر انہوں نے ہم سے پیسے مانگے،سینٹر پرویز رشید نے کہا کہ حکومت کو ہم سے شکایت رہتی ہے کہ ہم کوئی اچھی بات نہیں کرتے بلکہ بری باتیں کرتے ہیں جس کا براہ راست تعلق عوام سے ہوتا ہے،اس لیے معلوم ہوا ہے کہ عوام کی بات حکومت کواچھی نہیں لگتی،شیریں رحمن جب گزشتہ روز تقریر کررہی تھیں تو دو وزیر
سامنے سے جھوم جھوم کرگزر جاتے لیکن اج شکر خدا کوئی نہیں گزرا،ا س پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں،گلگت بلتستان کے الیکشن عجیب و غریب تھے،جہاں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کو منتخب ہونے ہی نہ دینا تھا،اور کہا گیا اس پر جو بھی حربہ استعمال کرنا پڑے،تیسری جماعت پی ٹی آئی رہ جاتی تھی،اس کے علاوہ بھی
جماعتیں تھیں،چھ ماہ کے اندر رپورٹ دینے والے کمیشن کی رپورٹ کہا ں ہے،قرضے جو بھی لیے گئے اس پر رپورٹ دی جائے،ہم نے کبھی نہ کہا کہ یہ کمیشن نہ بنے،لیکن کمیشن بنایا تو اس کو اہل بنائیں کہ وہ کام کریں اور آڑھائی سال اپنی حکومت کے بھی شامل کریں،2018میں جب یہ حکومت قائم کروائی جاتی ہے تو اس وقت 30ہزار ارب روپے قرضہ تھا اور آج 45ہزار ارب روپے ہے،دیکھا جائے آڑھائی سال میں 15ہزار ارب روپے قرضہ موجودہ حکومت نے لیا ہے۔