اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)نیب براڈشیٹ معاہدہ، پاکستان نے اپیل کا حق پہلے ہی چھوڑ دیا تھا۔مصالحت کار کی تقرری اسلام آباد کی مرضی سے ہوئی،پاکستان کے بجائے غیرملکی قوانین کا اطلاق کیا گیا۔روزنامہ جنگ میں طارق بٹ کی شائع خبر کے مطابق نیب نے براڈشیٹ سے جون 2000 میں
کیے گئے معاہدے میں مصالحتی عدالت کے اپنے خلاف آنے والے فیصلے پر اپیل کا حق چھوڑ دیا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ جس مصالحتی عدالت نے فیصلہ سنایا ہے۔ اس کی تقرری پاکستان کی مرضی سے کی گئی تھی اور یہ بات معاہدے میں لکھی ہوئی ہے۔ معاہدے کی شق 7.1 کے مطابق، اس معاہدے کے حوالے سے کسی بھی قسم کے تنازعے کی صورت میں مصالحت کار اسے حل کرے گا۔ جب کہ اپیل کا حق متفقہ طور پر طرفین کی مرضی سے خارج کردیا گیا ہے۔ یہ مصالحت چارٹرڈ انسٹیٹیوٹ آف آربیٹریٹرز لندن کے قواعد کے مطابق ہوگی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس معاہدے پر دستخط پاکستان میں ہوئے تھے مگر اس کی شق 6.1 میں کہا گیا ہے کہ اگر تنازعہ پاکستانی قوانین کے مطابق نا ہو تو اس پر ریاست کولوراڈو اور امریکا کے قوانین کا نفاذ ہوگا۔ معاہدے کے پیرا 4 میں کہا گیا ہے کہ نیب اور براڈشیٹ اس بات پر متفق ہوئے ہیں کہ براڈشیٹ کی کوششوں کی وجہ سے اگر کوئی بھی اثاثے بازیاب ہوتے ہیں یا نیب اور کسی فرد یا ادارے کے درمیان
معاہدے کی صورت میں ایسا ہوتا ہے تو شق 1.2 کے تحت اس کا اشتراک مشترکہ طور پر کیا جائے گا۔ کسی بھی قسم کے شکوک وشبہات کے خاتمے کے لیے بازیاب اثاثوں کے شیئرز کا اطلاق نیب کے کیے گئے کسی بھی معاہدے پر بھی ہوگا بشرط یہ کہ ایسا فرد یا ادارہ معاہدے سے قبل
رجسٹرڈ ہو۔ شق 4.2 میں کہا گیا ہے کہ براڈشیٹ کو بازیاب رقم کا 20 فیصد بمعہ بونس جب کہ نیب کو 80 فیصد حصہ کم بونس کے ساتھ ملے گا۔ مالیاتی ماہرین کے مطابق اس طرح کے فوائد غیرملکیوں کو دیئے جاتے ہیں بشرط یہ کہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں۔ جب کہ اس کیس
میں ایسی کمپنی کو یہ فوائد دیئے گئے جو کہ کاروبار کی تلاش میں تھی۔ اسی طرح ایک اور شق 18.7 میں کہا گیا ہے کہ براڈشیٹ کو دی گئی پاور آف اٹارنی ناقابل تنسیخ ہے۔ نیب اور براڈ شیٹ اس بات پر متفق تھے کہ معاہدہ اور پاور آف اٹارنی مکمل طور پر قابل عمل رہے گا اور اس میں کسی بھی قسم کی ترمیم یا تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ معاہدے میں پاکستان کو یک طرفہ طور پر معاہدہ ختم کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔