اسلام آباد (اے پی پی):وزیراعظم عمران خان نے مہنگائی پر قابو پانے، بجلی کے شعبہ کی کارکردگی بہتر بنانے، برآمدات میں اضافہ اور سبسڈیز صرف غریبوں تک محدود کرنے کو حکومت کیلئے چیلنج قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کارکردگی دکھانے کا وقت آ گیا ہے، حکومت سنبھالی
تو معاملات باہر سے بیٹھ کر دیکھنے سے بالکل مختلف تھے، گورننس نظام میں بیورو کریسی کے حوالہ سے اصلاحات پر کام ہو رہا ہے، تعمیرات کے شعبہ کا فروغ اور صنعتی ترقی کے اشاریے مثبت ہیں، ملکی معاشی ترقی و استحکام کیلئے برآمدات کا فروغ ناگزیر ہے، ملک میں توانائی کی ضروریات کو پورا کرنا ہماری ترجیح ہے، ترقیاتی منصوبے جلد سے جلد مکمل کرنا چاہتے ہیں، 18ویں ترمیم کے تحت وفاق اور صوبوں میں کچھ مسائل حل طلب ہیں، پانچ سال کے بعد عوام فیصلہ کریں گے کہ موجودہ حکومت کی کارکردگی کیسی رہی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مالی سال 21۔2020 ءکیلئے وزارتوں کی کارکردگی کے معاہدوں پر دستخطوں کی تقریب اور وفاقی وزارتوں کو کارکردگی سے متعلق اہداف سونپنے کے حوالہ سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمیں برسر اقتدار آنے کے بعد تین ماہ تو صرف صورتحال کو سمجھنے میں لگ گئے خاص طور پر بجلی کے شعبہ میں ڈیڑھ سال تک تو ہمیں اصل اعداد و شمار
کا ہی پتہ نہیں چل سکا اور اعداد و شمار تبدیل ہو کر آتے رہے، ہر حکومت کو پوری تیاری کے ساتھ برسر اقتدار آنا چاہئے اور اسے صورتحال کے بارے میں مکمل بریفنگ دی جانی چاہئے، ہمیں اپنے سسٹم کا جائزہ لینا ہے، ٹیم کی تشکیل کے بعد اہداف کے حصول کیلئے وقت ملنا چاہئے۔
حکومت سنبھالی تو معاملات باہر سے بیٹھ کر دیکھنے سے بالکل مختلف تھے، برطانیہ میں جب لیبر پارٹی کی طویل عرصہ کے بعد حکومت قائم ہوئی تو انہیں بیورو کریٹس نے ہر محکمہ کی صورتحال سے آگاہ کیا اور ان کی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے اپنی تجاویز دیں۔ وزیراعظم نے کہا
کہ وہ مختلف وزارتوں کی کارکردگی کا جائزہ لیتے رہے ہیں، کئی وزارتوں نے تو بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، کچھ وزارتیں کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے کوششیں کر رہی ہیں، 18ویں ترمیم کے نتیجہ میں جو اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ہوئی ہے اس حوالہ سے بھی مکمل طو
ر پر آگاہی اور تیاری دیکھنے میں نہیں آئی، فوڈ سکیورٹی کی وزارت وفاق کے پاس ہے لیکن اس کے جو ذیلی اختیارات ہیں وہ صوبوں کے پاس ہیں، اگر کوئی صوبہ وفاق کے ساتھ مل کر نہیں چلتا اور اپنی الگ پالیسی بناتا ہے اور مختلف صوبوں کے درمیان قیمتوں کا فرق آ جاتا ہے تو اس سے
قیمتوں کا سارا نظام متاثر ہوتا ہے، اگر گندم کی قیمت میں اضافہ ہو یا آٹا مہنگا ہو تو اس کا الزام وفاقی حکومت کو دیا جاتا ہے، اگر کوئی صوبہ گندم جاری نہیں کرتا اور مارکیٹ میں فراہم نہیں کرتا تو وفاق کے پاس کوئی کنٹرول نہیں ہے اور وہ اس سلسلہ میں کچھ نہیں کر سکتا۔ وزیراعظم نے
کہا کہ اس سلسلہ میں کام کرنے کی ضرورت ہے، ماحول کا شعبہ بھی صوبوں کو منتقل ہو گیا ہے، یہ شعبہ بھی وفاق کے پاس رہنا چاہئے تاکہ ماحول کو بہتر بنانے کے حوالہ سے کئے جانے والے اقدامات میں بہتری آئے۔ وزیراعظم نے کہا کہ وزارتوں کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا فیصلہ
درست سمت میں اہم قدم ہے، پانچ سال کے بعد عوام یہ فیصلہ کریں گے کہ ہم نے ان کی بہتری کیلئے کیا کیا، جو ان کے ساتھ وعدے کئے تھے وہ پورے کئے کہ نہیں، ہمارے پاس سوا دو سال ہیں اور ہم نے اس سلسلہ میں اپنی کارکردگی کو باقی وقت میں بہتر بنانا ہے، اب وہ بات نہیں ہو گی
کہ ہمارے پاس تجربہ نہیں تھا اور ہم پہلی بار اقتدار میں آئے، اب کارکردگی دکھانے کا وقت آ گیا ہے اور اپنی کارکردگی بہتر بنانے کیلئے وزارتیں اپنے اوپر دبائو ڈالیں، ہر وزارت کو اپنے اہداف پورے کرنے ہیں، ان اہداف میں سب سے بڑا چیلنج وزارت بجلی کو درپیش ہے، بجلی کا شعبہ
بہت پیچیدہ ہے، اس کے نظام کو بہتر بنانا ہے، ہم نے عوام کو سستی بجلی بھی فراہم کرنی ہے اور گردشی قرضہ کے بڑھتے ہوئے پہاڑ سے بھی نمٹنا ہے، اس لئے ہماری حکومت کیلئے جو سب سے بڑا چیلنج ہے وہ بجلی کے شعبہ کی کارکردگی بہتر بنانے کا ہے، ہم تقریباً اڑھائی ہزار ارب
کی سبسڈیز دے رہے ہیں اور سبسڈیز کا مقصد غریب طبقہ کو سہولت فراہم کرنا ہوتا ہے اور دوسرے پسماندہ علاقوں کی ترقی ہے جو ترقی کے عمل میں پیچھے رہ گئے ہیں، اس کے علاوہ آمدنی بڑھانے کیلئے بھی یہ استعمال کی جاتی ہیں کیونکہ اگر ہم اپنی برآمدات نہیں بڑھاتے تو
کرنٹ اکائونٹ خسارہ بڑھ جاتا ہے، موجودہ حکومت کے ٹھوس اقدامات کی وجہ سے ہمارا کرنٹ اکائونٹ فاضل ہو گیا ہے، یہ ہماری بہت اچھی کارکردگی ہے، اگر کرنٹ اکائونٹ خسارہ ہو تو روپے پر دبائوبڑھتا ہے، روپے کی قدر میں کمی سے مہنگائی بڑھتی ہے، مہنگائی بھی ہمارے لئے
ایک چیلنج ہے کیونکہ ہم نے لوگوں پر دبائو نہیں پڑنے دینا۔ وزیراعظم نے کہا کہ کرنٹ اکائونٹ کا فاضل ہونا باعث اطمینان ہے، کئی سبسڈیز غریب آدمی کے ساتھ ساتھ امیر طبقہ بھی حاصل کر رہا ہے، ہم سبسڈیز صرف غریبوں کیلئے مخصوص رکھنے پر توجہ دیں گے، جب ہم ہماری
درآمدات بڑھتی ہیں تو کرنٹ اکائونٹ خسارہ بھی بڑھ جاتا ہے اور اس سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر پر بھی دبائو بڑھتا ہے جس کے حل کیلئے آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ برآمدات میں اضافہ پر خصوصی توجہ دینی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہماری پنشن بہت زیادہ
بڑھتی جا رہی ہیں اور کسی نے اس سلسلہ میں ماضی میں منصوبہ بندی نہیں کی، ڈاکٹر عشرت حسین کی طرف سے اس سلسلہ میں اصلاحات کا ہم انتظار کر رہے ہیں، ملائیشیا میں پنشنز کو بچت میں تبدیل کر دیا گیا ہے جو ملک کیلئے اثاثہ بن چکی ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ سبسڈیز کا بہتر سے بہتر
استعمال کیا جائے، زراعت کے شعبہ پر بھی ماضی میں توجہ نہیں دی گئی، زرعی پیداوار میں اضافہ کے ساتھ ساتھ یہ شعبہ روزگار کے مواقع بھی فراہم کرتا ہے، چین کے ساتھ سی پیک میں زرعی شعبہ کو بھی شامل کیا جا رہا ہے اس سے زراعت کا شعبہ بھی ترقی کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ
سول سروس کے شعبہ میں اصلاحات پر کام ہو رہا ہے، جب تک بیورو کریسی کارکردگی میں بہتری نہیں آ جاتی تب تک ہم مختلف گریڈز کے ذریعے منصوبوں کی کارکردگی کا آن لائن جائزہ لیں گے کیونکہ ہمارے اربوں روپے کے منصوبوں میں اس وجہ سے نقصان ہو جاتا ہے کہ وہ
مختلف وزارتوں میں جا کر پھنس جاتے ہیں اور ملک کیلئے ان پر تیزی سے عملدرآمد کا خیال نہیں کیا جاتا، ہم نے زیادہ ترجیح والے جو معاملات ہیں اور منصوبے ہیں ان کیلئے چینل بنایا جائے گا اور اگر کسی وزارت میں ان منصوبوں پر کام تاخیر کا شکار ہوا تو متعلقہ وزارت کے
خلاف ایکشن لیا جائے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہماری معیشت ترقی کر رہی ہے، تعمیرات کا شعبہ فروغ پا رہا ہے، صنعتیں فعال ہیں، جیسے جیسے معیشت ترقی کرے گی تو درآمدات بھی بڑھیں گی، ہم نے کوشش یہ کرنی ہے کہ کرنٹ اکائونٹ کو خسارہ میں نہ جانے دیں، دو سال میں بڑی مشکلات
کے بعد معیشت اب مثبت سمت میں چل رہی ہے، آگے آنے والی رکاوٹوں کے تدارک کا ہمیں ابھی سے سوچنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اب ہمیں تمام وزارتوں کے بارے میں یہ معلوم ہو گا کہ انہوں نے جو اپنے اہداف مقرر کئے ہیں وہ انہیں حاصل کرنے کیلئے کیا کر رہی ہیں اور اسی پر کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا۔