اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر صحافی ، اینکرپرسن اور کالم نگار حامد میر نے کہا کہ اتنی بھی کیا جلدی تھی؟ 13دسمبر کو لاہور میں پی ڈی ایم کے جلسے سے دو دن قبل شیخ رشید احمد کو وفاقی وزارت داخلہ کا قلمدان سونپا گیا۔کوئی مانے یا نہ مانے لیکن عام خیال یہی ہے کہ
شیخ رشید احمد کو پی ڈی ایم سے نمٹنے کے لیے وزیر داخلہ بنایا گیا ہے۔ شیخ صاحب کو وزیر داخلہ بنائے جانے کے دو دن بعد وفاقی کابینہ نے چھٹی کے دن ہنگامی طور پر ایک قانون میں ترمیم کی اور بغاوت کے مقدمات کے اندراج کا اختیار وفاقی سیکرٹری داخلہ کو دے دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ یہ نکتہ بڑا اہم ہے کہ جب شیخ رشید احمد نے خود وزیر داخلہ بننے کی خواہش ظاہر کی تو وزیراعظم عمران خان نے صاف انکار کر دیا تھا، شیخ صاحب کے ایک پرانے محسن نے وزیراعظم سے کہا کہ اگر آپ شیخ رشید احمد کو وزیر داخلہ نہیں بنا سکتے تو وزیر ریلوے بنا دیں۔یہ سن کر وزیراعظم نے چند لمحوں کے لیے سوچا اور وزیر ریلوے بنانے پر ہاں کر دی۔ 11 دسمبر کو شیخ صاحب کو اچانک وزیر داخلہ بنانے کا فیصلہ ان کے پرانے محسن کے لیے بھی حیرت کا باعث بنا اور وہ کہہ رہے تھے کہ اب شیخ صاحب آر ہوں گے یا پار۔ شیخ رشید احمد کے وزیر داخلہ بننے سے یہ تو واضح ہو گیا کہ حکومت اور پی ڈی ایم میں میچ پھنس گیا ہے۔
ملتان کے بعد پی ڈی ایم نے لاہور میں بھی جلسہ کر دکھایا۔ بڑے بڑے اعلانات اور گرما گرم تقاریر بھی ہو گئیں۔ اب غداری کے مقدمات ہوں گے اور کچھ اپوزیشن رہنمائوں کو گرفتار کیا جائے گا۔ اِن گرفتاریوں پر اپوزیشن نے مزاحمت کی تو مزید گرفتاریاں نہیں ہوں گی اور اگر
مزاحمت نہ ہوئی تو اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ سے پہلے پہلے اپوزیشن کے خلاف کریک ڈائون شروع ہو سکتا ہے۔اِس کریک ڈائون میں غداری کے مقدمات حکومت کا ایک اہم ہتھیار بن سکتے ہیں۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ حکومت یہ کہے گی کہ بغاوت یا ریاستی اداروں کے خلاف
اکسانے کے مقدمات کے اندراج کا طریقہ کار کچھ عدالتی فیصلوں کی روشنی میں تبدیل کیا جا رہا ہے لیکن حقیقت میں یہ تبدیل شدہ قانون حکومتی مخالفین کے خلاف استعمال ہو گا۔ نریندر مودی جو کام ہندوستان میں اپنے مخالفین کے خلاف کر رہے ہیں، وہ کام عمران خان پاکستان میں اپنے
مخالفین کے خلاف کریں گے۔لہذا آنے والے دنوں میں سیاسی کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گا۔ آنے والے دو مہینے بہت خطرناک ہیں۔ فیصلہ عمران خان اور پی ڈی ایم کی لڑائی میں نہیں ہونا۔ فیصلہ اس لڑائی میں ہونا ہے جو میڈیا اور عوام کی نظروں سے اوجھل ہے۔