منگل‬‮ ، 24 دسمبر‬‮ 2024 

وزارت داخلہ کا نوٹس مولانا فضل الرحمن کا شدید ردعمل ، کھری کھری سنا دیں

datetime 7  دسمبر‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد /لاہور(این این آئی) جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے وزارتِ داخلہ کے سیاسی ومذہبی جماعتوں کی ملیشیا اور وردی کا نوٹس پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ وزارت داخلہ کا نوٹس بد نیتی پر مبنی ہے ۔ ایک انٹرویومیں جمعیت علمائے اسلام (ف)کے

سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ وزارت داخلہ کا نوٹس بدنیتی پر مبنی ہے۔ انہوںنے کہاکہ یہ سیاسی دبائو کے طور پر ایک رجسٹرڈ جماعت کو دباو میں لانے کی کوشش ہے۔ انہوںنے کہاکہ جان بوجھ کر ایک نان ایشو کو ایشو بنایا جارہا ہے، نوٹی فکیشن کے الفاظ نئے نہیں ہیں، اس کا کوئی بھائونہیں۔ انہوںنے کہاکہ ملیٹنٹ اور رضاکار میں فرق ہوتا ہے، رضاکار انصارالاسلام کے ہیں جو جے یو آئی کا ایک دستوری ونگ ہے۔ انہںنے کہاکہ رضاکار الیکشن کمیشن سے رجسٹرڈ ہیں، اس پرکبھی اعتراض نہیں کیا گیا، رضاکار جے یو آئی ف کے دستور کا حصہ ہیں۔ انہوںنے کہاکہ 2001میں ہم نے لاکھوں کے جلسے کیے، ہمارے رضاکاروں کی پلاننگ کو اس وقت کے وزیرداخلہ نے سراہا۔ انہوں نے کہاکہ 2017 میں بھی ہم نے جلسے کیے، انصارالاسلام کے رضاکاروں نے سکیورٹی کی، آزادی مارچ میں بھی انہی رضاکاروں نے سکیورٹی دی، ایک گملا تک نہیں ٹوٹا، ڈنڈے کی کوئی رجسٹریشن نہیں ہوتی، نا ہی لائسنس ہوتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ

ایسے نوٹی فکیشن صرف سیاسی دباو کیلئے ہوتے ہیں۔دریں اثنا وفاقی وزارت داخلہ نے صوبائی حکومتوں کو سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی تشکیل دی گئی ”ملیشیاز”کے افعال کا جائزہ لینے کے لیے ضروری اقدامات کی ہدایت کردی۔اس سلسلے میں سیکرٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر

کی جانب سے چاروں صوبوں سمیت گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے چیف سیکریٹریز کو مراسلہ ارسال کیا گیا۔مراسلے میں کہا گیا کہ ‘مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ کچھ سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے اپنی ملیشیاز قائم کر رکھی ہیں جو نہ صرف وردی پہنتی ہیں بلکہ مسلح افواج یا قانون

نافذ کرنے والے اداروں کی طرح ان میں درجہ بندی بھی ہے۔مراسلے میں مزید کہا گیا کہ یہ ملیشیاز اپنے آپ کو ایک عسکری تنظیم کی طرح سمجھتی ہیں جو آئین کی دفعہ 256 اور نیشنل ایکشن پلان کے نکات نمبر 3کی سنگین خلاف ورزی ہے۔مراسلے میں اس بات پر تشویش کا اظہار

کیا گیا کہ اس قسم کی چیزوں کو اگر دیکھا نہ جائے تو یہ سکیورٹی کی پیچیدہ صورتحال کو مزید سنگین بنا سکتی ہیں، اس کے علاوہ اس مسئلے کا ملک کے قومی اور بین الاقوامی تشخص پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔سیکرٹری داخلہ کا کہنا تھا کہ اس طرح کی تنظیمیں دیگر سیاسی اور مذہبی

جماعتوں کے لیے غلط مثال قائم کررہی ہیں اور دیگر جماعتیں بھی اس طرح کے افعال کرسکتی ہیں جس سے امن و عامہ کی صورتحال مزید پیچیدہ ہوسکتی ہے۔مراسلے میں کہا گیا کہ مذکورہ بالا صورتحال کے تناظر میں تمام صوبائی حکومتوں سے درخواست کی جاتی ہے کہ اس خطرے کا فوری جائزہ لیں اور ان کے افعال اور مزید اس قسم کی ملیشیاز کی تشکیل پر نظر رکھیں اور اس سلسلے میں ضروری اقدامات اٹھائے جائیں۔ساتھ ہی وفاقی حکومت کی جانب سے ضرورت پڑنے پر ہر قسم کی معاونت بھی فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی۔

موضوعات:



کالم



طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے


وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…