ہفتہ‬‮ ، 23 ‬‮نومبر‬‮ 2024 

وزارت داخلہ کا نوٹس مولانا فضل الرحمن کا شدید ردعمل ، کھری کھری سنا دیں

datetime 7  دسمبر‬‮  2020
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد /لاہور(این این آئی) جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے وزارتِ داخلہ کے سیاسی ومذہبی جماعتوں کی ملیشیا اور وردی کا نوٹس پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ وزارت داخلہ کا نوٹس بد نیتی پر مبنی ہے ۔ ایک انٹرویومیں جمعیت علمائے اسلام (ف)کے

سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہاکہ وزارت داخلہ کا نوٹس بدنیتی پر مبنی ہے۔ انہوںنے کہاکہ یہ سیاسی دبائو کے طور پر ایک رجسٹرڈ جماعت کو دباو میں لانے کی کوشش ہے۔ انہوںنے کہاکہ جان بوجھ کر ایک نان ایشو کو ایشو بنایا جارہا ہے، نوٹی فکیشن کے الفاظ نئے نہیں ہیں، اس کا کوئی بھائونہیں۔ انہوںنے کہاکہ ملیٹنٹ اور رضاکار میں فرق ہوتا ہے، رضاکار انصارالاسلام کے ہیں جو جے یو آئی کا ایک دستوری ونگ ہے۔ انہںنے کہاکہ رضاکار الیکشن کمیشن سے رجسٹرڈ ہیں، اس پرکبھی اعتراض نہیں کیا گیا، رضاکار جے یو آئی ف کے دستور کا حصہ ہیں۔ انہوںنے کہاکہ 2001میں ہم نے لاکھوں کے جلسے کیے، ہمارے رضاکاروں کی پلاننگ کو اس وقت کے وزیرداخلہ نے سراہا۔ انہوں نے کہاکہ 2017 میں بھی ہم نے جلسے کیے، انصارالاسلام کے رضاکاروں نے سکیورٹی کی، آزادی مارچ میں بھی انہی رضاکاروں نے سکیورٹی دی، ایک گملا تک نہیں ٹوٹا، ڈنڈے کی کوئی رجسٹریشن نہیں ہوتی، نا ہی لائسنس ہوتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہاکہ

ایسے نوٹی فکیشن صرف سیاسی دباو کیلئے ہوتے ہیں۔دریں اثنا وفاقی وزارت داخلہ نے صوبائی حکومتوں کو سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی تشکیل دی گئی ”ملیشیاز”کے افعال کا جائزہ لینے کے لیے ضروری اقدامات کی ہدایت کردی۔اس سلسلے میں سیکرٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر

کی جانب سے چاروں صوبوں سمیت گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے چیف سیکریٹریز کو مراسلہ ارسال کیا گیا۔مراسلے میں کہا گیا کہ ‘مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ کچھ سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے اپنی ملیشیاز قائم کر رکھی ہیں جو نہ صرف وردی پہنتی ہیں بلکہ مسلح افواج یا قانون

نافذ کرنے والے اداروں کی طرح ان میں درجہ بندی بھی ہے۔مراسلے میں مزید کہا گیا کہ یہ ملیشیاز اپنے آپ کو ایک عسکری تنظیم کی طرح سمجھتی ہیں جو آئین کی دفعہ 256 اور نیشنل ایکشن پلان کے نکات نمبر 3کی سنگین خلاف ورزی ہے۔مراسلے میں اس بات پر تشویش کا اظہار

کیا گیا کہ اس قسم کی چیزوں کو اگر دیکھا نہ جائے تو یہ سکیورٹی کی پیچیدہ صورتحال کو مزید سنگین بنا سکتی ہیں، اس کے علاوہ اس مسئلے کا ملک کے قومی اور بین الاقوامی تشخص پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔سیکرٹری داخلہ کا کہنا تھا کہ اس طرح کی تنظیمیں دیگر سیاسی اور مذہبی

جماعتوں کے لیے غلط مثال قائم کررہی ہیں اور دیگر جماعتیں بھی اس طرح کے افعال کرسکتی ہیں جس سے امن و عامہ کی صورتحال مزید پیچیدہ ہوسکتی ہے۔مراسلے میں کہا گیا کہ مذکورہ بالا صورتحال کے تناظر میں تمام صوبائی حکومتوں سے درخواست کی جاتی ہے کہ اس خطرے کا فوری جائزہ لیں اور ان کے افعال اور مزید اس قسم کی ملیشیاز کی تشکیل پر نظر رکھیں اور اس سلسلے میں ضروری اقدامات اٹھائے جائیں۔ساتھ ہی وفاقی حکومت کی جانب سے ضرورت پڑنے پر ہر قسم کی معاونت بھی فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی۔

موضوعات:



کالم



ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں (حصہ دوم)


آب اب تیسری مثال بھی ملاحظہ کیجیے‘ چین نے 1980ء…

ہم سموگ سے کیسے بچ سکتے ہیں؟

سوئٹزر لینڈ دنیا کے سات صاف ستھرے ملکوں میں شمار…

بس وکٹ نہیں چھوڑنی

ویسٹ انڈیز کے سر گارفیلڈ سوبرز کرکٹ کی چار سو…

23 سال

قائداعظم محمد علی جناح 1930ء میں ہندوستانی مسلمانوں…

پاکستان کب ٹھیک ہو گا؟

’’پاکستان کب ٹھیک ہوگا‘‘ اس کے چہرے پر تشویش…

ٹھیک ہو جائے گا

اسلام آباد کے بلیو ایریا میں درجنوں اونچی عمارتیں…

دوبئی کا دوسرا پیغام

جولائی 2024ء میں بنگلہ دیش میں طالب علموں کی تحریک…

دوبئی کاپاکستان کے نام پیغام

شیخ محمد بن راشد المختوم نے جب دوبئی ڈویلپ کرنا…

آرٹ آف لیونگ

’’ہمارے دادا ہمیں سیب کے باغ میں لے جاتے تھے‘…

عمران خان ہماری جان

’’آپ ہمارے خان کے خلاف کیوں ہیں؟‘‘ وہ مسکرا…

عزت کو ترستا ہوا معاشرہ

اسلام آباد میں کرسٹیز کیفے کے نام سے ڈونٹس شاپ…