اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک ،ا ین این آئی )سابق صدر آصف زرداری کیساتھ راولپنڈی کے طاقتور حلقوں کارابطہ۔سینئر صحافی عمران یعقوب نے نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ ملک کے موجودہ کشیدہ سیاسی حالات میں راولپنڈی کے طاقتور
حلقوں نے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری سے رابطہ کیا ہے۔رابطے کے دوران آصف زرداری سے کہا گیا کہ ملک میں سیاسی کشیدگی کم کرنے کیلئے کردار ادا کریں۔ اس رابطے کے بعد آصف زرداری نے سیاسی رہنمائوں سے رابطے کیے۔ راولپنڈی کے طاقتور حلقوں سے رابطہ ہونے کے بعد سابق صدر مملکت نے نواز شریف سے 4 مرتبہ جبکہ مولانا فضل الرحمن سے 7 مرتبہ رابطہ کیا۔ سینئر صحافی کے مطابق آصف زرداری کی جانب سے نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کو قائل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ بند گلی کی جانب نہ بڑھا جائے۔عمران خان حکومت مسئلہ ہے تو اس سے جان چھڑوانے کیلئے عدم اعتماد تحریک کا سہارا لیتے ہیں، اسمبلیوں سے استعفے نہ دیے جائیں، سب سے پہلے پنجاب میں عدم اعتماد تحریک لے آتے ہیں۔ عمران یعقوب کی جانب سے مزید بتایا گیا ہے کہ سیاسی کشیدگی کو کم کرنے کیلئے 2 اور اہم ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ ایک ملاقات شہباز شریف اور چوہدری نثار کے درمیان
ہوئی، جبکہ دوسری ملاقات مریم نواز، شہباز شریف اور حمزہ شہباز کے درمیان ہوئی۔پہلی ملاقات میں چوہدری نثار نے شہباز شریف سے کہا کہ ن لیگ کی سیاست اب بھی ختم نہیں ہوئی، تاہم پارٹی کے موجودہ بیانیے سے پیچھے ہٹنے کی ضرورت ہے۔ جبکہ دوسری ملاقات میں
شہباز شریف نے بھی مریم نواز سے یہی کہا کہ اتنا آگے نہ جایا جائے کہ پھر واپسی کی کوئی گنجائش باقی نہ بچے۔دوسری جانب نجی ٹی وی کے مطابق شہباز شریف کی مریم نواز اور حمزہ شہباز کے مابین ہونے والی ملاقات کی اندرونی کہانی منظر عام پر آگئی ہے ۔ ملاقات میں پی ڈی ایم
کے لاہور میں ہونے والے جلسے سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ مریم نواز نے اپنی ریلیوں کے حوالے سے بھی بتایا۔ذرائع کے مطابق تینوں رہنمائوں کے درمیان ہونے والی ملاقاتمیں اتفاق کیا گیا کہ لانگ مارچ کے آپشن کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مریم نواز نے شہباز کو پی ڈی ایم کے
جلسوں سے متعلق تفصیلات سے آگاہ کیا جبکہ شہباز نے مریم کو سیاسی معاملات چلانے سے متعلق مشورے دئیے۔ مریم نواز نے شہباز شریف کی ہدایات سے اہم لیگی ارکان اسمبلی کو آگاہ کر دیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز شریف نے ملاقات کے دوران مریم نواز کو مشورہ دیا ہے کہ استعفوں کے آپشن پر سب سے آخر میں سوچیں۔ اس حد تک نا جائیں جہاں سے واپسی مشکل ہو، پیپلزپارٹی سے استعفوں کے آپشن کے حوالے سے تحفظات ہیں۔