اسلام آباد (آن لائن)چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت اجلاس کے آغاز میں مولانا فیض نے مقبوضہ کشمیر،کراچی سٹاک ایکسچینج شہداء اور کورونا وباء میں جاں بحق ہونے والوں کیلئے دعا کرائی ۔ایوان بالا میں ملک میں صدارتی نظام کے نفاذ کی گونج سے اپوزیشن سیخ پا ہوگئی،مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ پلے نہیں دھیلا کرتی میلا میلا،چھ وزیر اعظم بنے گھوم رہے ہیں۔
پہلے گھر کو تو ٹھیک کرو۔اس ملک میں بار بار صدارتی نظام نہیں آیا ہے جس سے ملک کے ٹکڑے ٹکڑے ہوئے ،لوگ تاریخ نہیں پڑھتے۔ جب ملک دو لخت ہوا تو ملک میں صدارتی نظام تھا،کیا ملک دو لخت ہوا اس وقت صدارتی نظام تھا ،جنرل ایوب ضیا الحق اور مشرف کے دور میں صدارتی نظام رہا،تاریخ سے نا بلد لوگ صدارتی نظام کی بات کر رہے ہیں ،آج لیڈر آف ہاوس کہہ رہے ہیں ملک جمہوریت ہے ،ہمیں درس دے رہے ہیں شہزاد وسیم اس وقت مشرف کے وزیر تھے ،مشرف نے کراچی میں قتل عام کیا اکبر بھگٹی کو قتل کیا گیا ،یہ سارے کام صدارتی نظام میں ہوئے ،کسی میں جرات نہیں صدارتی نظام لانے کی یا اٹھارہویں ترمیم ختم کرنے کی ،یہ حکومت چل کیسے رہی ہے جس کے وزرا روز جھوٹ بولتے ہیں ،علی زیدی اور احتساب اکبر آجکل پریس کانفرنسیں کر رہے ہیں ،ڈبو صاحب بھی بیان دینے رہے پی آئی اے میں بھائی بھرتی کرائے ،ایک بھائی بھی کی بھرتی نکل آئے سینیٹ سے مستعفی ہوجائوں گا،پی آئے اے کو آپ لوگوں نے زمین بوس کر دیا ،ان سے ہینڈل کچھ نہیں ہو رہا ہے اس لئے صدارتی نظام کی باتیں کی جارہی ہیں ،پلے نہیں دھیلا کرتی میلا میلا،چھ وزیر اعظم بنے گھوم رہے ہیں ،پہلے گھر کو تو ٹھیک کرو،ایسی ایسی کرپشن ہو رہی ہے کچھ عرصے بعد پتہ چلے گا۔
بہت سے لوگ جیل میں ہونگے ،یہ ایمپائر کی انگلی پر اچھل اچھل کر آئے تھے ،اب انگلی بھی نکلنے والی ہے ،قائد ایوان کا انگلی کے لفظ پر احتجاج کیا اور چیئرمین سینیٹ سے الفاظ حذف کرانے کا مطالبہ کرتے رہے۔اس موقع پر سینیٹر مولانا عطاء الرحمن نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بہت عرصے بعد آج ایوان میں بات کرنے کا موقع ملا ہے ،اس وقت جو موضوع زیر بحث ہے اس پر گفتگو کروں گا ۔
این ایف سی ایوارڈ کو سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت زیر بحث لایا جارہا ہے ،اس وقت اٹھارویں ترمیم کو زیر بحث لانا یا این ایف سی ایوارڈ کو زیربحث لانا ملک کو کمزور کرنے کی بات ہے ،جمعیت علماء اسلام نے جب یہ باز گشت سنی پہلی بار تو ہم نے تمام اپوزیشن جماعتوں کے سربراہان کے سربراہان سے رابط کئے ہیں ،چاروں صوبوں میں ہم نے آل پارٹیز کانفرنسز کی ،بہت جلد ہم قومی سطح پر آل پارٹیز کانفرنس بلائیں گے ،اے پی سی کا موضوع بھی این ایف سی ایوارڈ اور اٹھارویں ترمیم ہے ۔
یہ تمام افراد صرف مہرے ہے، اصل لوگ سامنے نہیں آرہے ،اٹھارویں ترمیم میں بھی ان کو جو درد ہے وہ این ایف سی ایوارڈ نہیں ہے ،اٹھارویں ترمیم میں انکا اصل درد انکے اپنے اختیارات کی کمی ہے ،یہ تمام معزز افراد انکے مہرے ہیں ور انکے کہنے پر کام کر رہے ہیں،آج بھی جو افراد پس پردہ حکومت کر رہے ہیں ،انکوں اس قوم سے کچھ نہیں ہے وہ بس باہر کے ممالک کو خوش کر رہے اور اس ملک کو کھا رہے ہیں ،میں ان کو بتادیتا ہو کہ اٹھارویں ترمیم کو اگر چھیڑا تو یہ ملک ہی نہیں رہے گا ۔
جب یہ ملک نہیں رہے گا تو آپ لوگ کیا کھائیں گے ،آج تک ان لوگوں کے بجٹ کا کوئی حساب نہیں ہے ،آپ لوگوں نے آج تک کونسی جنگ لڑی ہے ،اپنا کام آپ سے ہوتا نہیں ہے اور ملک کے اندر اس طرح کی بحث چھیڑ کر آپ لوگ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔پیپلز پارٹی کے سینیٹر رضا ربانی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں یوم شہداء کی کال دی گئی ہے، یوم شہداء کے برعکس پاکستان نے بیس مئی کو آرڈیننس جاری کیا، آرڈیننس بھارتی جاسوس کو سزا کے خلاف اپیل کرنے کا حق دینے سے متعلق ہے۔
یہ آرڈیننس رات کے اندھیرے میں جاری کر کے خفیہ رکھا گیا ہے ،اس آرڈیننس کو آرڈیننس پارلیمان میں پیش نہیں کیا گیا۔اپوزیشن لیڈر راجا ظفر الحق نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سید علی گیلانی نے آج یوم شہدا جموں بنانے کی اپیل کی ہے ،آج کے دن سرینگر جیل کے باہر بائیس کشمیریوں کو ڈوگرہ فوج نے شہید کیا ،22 لوگوں نے آذان مکمل کی اور پھر شہید ہوئے ۔بعد ازاں سینیٹر جاوید عباسی نے ڈرک ریگولیٹری اتھارٹی ترمیمی بل پیش کیا ،چیئرمین سینیٹ نے بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا۔
سینیٹر جاوید عباسی نے کمیشن آف انکواِئری ایکٹ میں مزید ترمیم کا بل پیش کرنے کی تحریک پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں انکوئری کیلئے کمیشن بن جاتے ہیں رپورٹ نہیں آتی،ایبٹ آباد کمیشن سمیت تمام کمیشن کی رپورٹس ان کیمرہ دو ماہ میں ایوان میں پیش کی جائیں ،بل میں ترمیم کا مقصد رپورٹ کو ان کمیرہ سامنے لانے پر پابند کرنا ہے ،معاون خصوصی پارلیمانی امور بابر اعوان کی بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ان کیمرہ نہیں ہم رپورٹ پبلک کرانے کے حق میں ہیں ،چیئرمین سینیٹ نے بل قانون و انصاف کمیٹی کو بھجوا دیا ۔17 سینیٹرز نے مالیاتی بل میں سینیٹ کی بیس فیصد شفارشات پر عملدرآمد کا پابند کرنے کا بل پیش کیا۔
سینیٹر میاں عتیق شیخ نے کہا ہے کہ بل آئین کے آرٹیکل 73میں ترمیم سے متعلق ہے ،کورونا وبا کے دوران کمیٹی نے مالیاتی بل پر اٹھاون گھنٹے کام کیا ،مالیاتی بل کے حوالے سے سینٹ کی خزانہ کمیٹی کی شفارشات پر غور تک نہ ہوا،سینٹ کے پاس مالیاتی بل کے حوالے سے اختیارات نہیں ۔سینیٹر مشتاق نے کہا کہ سینیٹ کو ڈیبیٹنگ کلب نہ بنایا جائے،حکومت رکنی سینیٹر ولید اقبال نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں پارلیمانی نظام میں ایوان زیریں کو ہی اختیار ہے،ایسا کرنا ہے تو پھر صدارتی نظام لایا جائے ۔
چیئرمین سینٹ نے بل متعلقہ کمیٹی کو بھجوا دیا ۔سینیٹر جاوید عباسی نے دارلحکومت میں لا افسران کی تقرری کیلئے قانون بنانے کے بل کی تحریک پیش کی اور کہا کہ صوبوں میں لا افسران کی تقرری ہوتی ہے ،وفاق میں اس کام کیلِئے پرائیویٹ لا فرم سے کام لیا جاتاہے ،بابراعوان نے اس بات کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد میں اس بل کا اطلاق ممکن نہیں اس حوالے سے مزید ترامیم لائی جائیں ،چیئرمین سینٹ نے بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کر دیا،سینیٹر جاوید عباسی نے اسلام آباد وائلڈ لائف ترمیمی بل ایوان میں پیش کیا جسے چیئرمین سینیٹ نے بغیر بحث کے بل کو متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔
سینیٹر بیرسٹر علی سیف نے قومی مالیاتی کمیشن میں ترمیمی کے بل کی تحریک ایوان میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ مالیاتی کمیشن کے تحت وفاق کے اخراجات بڑھنے سے صوبوں کے بجٹ میں کٹوتی ہوتی ہے ،اس میں ترمیم کی جائے کیونکہ صوبوں کے ساتھ زیادتی ہوتی رہی ہے ، بلوچستان کو کم حصہ مل رہاہے بلوچستان کو پنجاب سے زیادہ حصہ دیا جائے ،اس معاملے پر سینٹ کی پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی میں بحث کرائی جائے ۔
سینیٹر شیری رحمن نے بیرسٹر سیف کے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ افسوس ہے حکومتی بنچوں سے پارلیمان پر حملہ کیا جا رہا ہے ،پاکستان میں پارلیمان انڈر اٹیک ہے، این ایف سی ایوارڈ کی بات کی جا رہی یہ تو عمرانی معاہدہ ہے عوام کے ساتھ ہے ،عوام کے حقوق اور جمہوریت کے دل پر شب خون مارا جا رہا ہے، زرا سی بات ہو تو صدارتی نظام پر بات کرنا شروع کی جاتی ہے،محصولات کا ٹارگٹ وفاق پورا نہیں کر پا رہا ہے۔
پانچ ایف بی آر چیف تبدیل کئے گئے ہیں،وفاق پیچھے گرتا جا رہا ہے،سندھ اپنے ریونیو ٹارگٹ سے 8 فیصد آگے ہے، اس دفعہ تو حکومت پر آئی ایم بھی ہنس پڑا ہے ، اس وقت ملک کو معاشی طور پر صوبے چلا رہے ہیں، وفاق آپ کی نا اہلیت کی وجہ سے گرتا جا رہا ہے۔ این ایف سی ایوارڈ گزشتہ حکومت میں کیا گیا ،اٹھارہویں ترمیم کے حوالے سے خدشات دور ہو ں گے ،اب حکومت بینچوں سے معاملہ سامنے آیا ہے ،اٹھارہویں ترمیم پر شب خون مارنے کی کوشش کی جا رہی ہے ،پارلیمان اس وقت پاکستان میں انڈر اٹیک ہے،افسوس سے کہا جا سکتاہے حکومتوں بینچوں سے پارلیمان پر حملہ کیا جا رہا ہے ۔
اٹھارہویں ترمیم اور آئین صوبوں کے ساتھ وفاق کا عمرانی معاہدہ ہے ،سندھ تو محصولات کے ہدف میں آٹھ فیصد آگے ہے ،وفاق کام نہیں کر رہا اٹھارہ ماہ میں پانچ ایف بی آر چیئرمین بدلے گئے ہیں ، ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آر کی ری اسٹیکچرنگ کی ضرورت ہے ،ایف بی آر کی نا اہلی سے سالانہ کھربوں روپے خرچ ہوتے ہیں ،حکومت ہرروز بیس ارب کا اضافی قرض لے رہی ہے ،صوبے ہی تو ملک چلا رہے ہیں تنخواہ دے رہے ہیں ،اب تو آئی ایم ایف بھی کہہ رہا ہے ان سے بجٹ بیلنس نہیں ہو رہا۔
سینیٹر رضا ربانی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ تاثر دیا جارہا ہے جمہوری قوتیں اٹھارہویں ترمیم پر گفتگو سے گریز کر رہی ہیں ،اس بحث سے پیچھے ہٹنے کا تاثر درست نہیں ،پاکستان کی اشرافیہ کی جنگ یہی رہی ہے کہ تمام ملکی وسائل پر اسلام آباد کا قبضہ برقرار رہے ،اشرافیہ صوبوں کے وسائل پر قابض ہونا چاہتی ہے ،این ایف سی ایوارڈ 1973 کے آئین کے تحت آیا اٹھارہویں ترمیم کے تحت نہیں ،گیارہ گیارہ سال این ایف سی ایوارڈ نہیں آتا رہا ،ابھی بھی نیا این ایف سی ایوارڈ نہیں آرہا ،یہ آج کی بات نہیں ملک کے اشرفیہ کی سینتالیس سے کوشش ہے اسلام آباد اور کراچی پر قبضہ رہے ،اس دفع آئی ایم ایف بھی شامل ہوگیا ۔
آئی ایم ایف کو صوبوں کو مالیاتی اختیار پر اعتراض ہے ،عالمی مالیاتی سامراج اور اشرافیہ ملکر صوبوں کے وسائل پر قبضہ چاہتی ہے،اس وقت بھی مشرقی پاکستان کے لوگوں کو انکا حصہ نہیں دیا گیا ،اٹھارہویں ترمیم این ایف سی کو نہیں لائی ،یہ حق صوبوں کو آئین نے دیا ،وفاق صوبوں کے وسائل پر قابض رہا،آج بھی نیا این ایف سی نہیں آ رہا ہے ،ٹیکس بیس وفاقی حکومت نہیں بڑھا رہی ،اٹھارہویں ترمیم کو صرف قانون کو نہ دیکھیں ،اٹھارہویں ترمیم نے قوم پرستوں کو پہاڑوں سے اتار کر میز پر لایا۔
اس موقع پر سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ بیرسٹر سیف کا بل حساس نوعیت کا ہے، تاثر دیا جا رہا ہے کہ میرا اور آپ کا آفس اس سازش میں ملوث ہیں، یہ بل ڈسکس ہوا ہے اور ایک منصوبہ بندی کے تحت لایا گیا ہے۔ سینیٹر میر کبیر نے کہا کہ جناب چیئرمین آج ہمیں دو پاکستان نظر آرہے ہے ،ایک پاکستان میں لوگ خوش نظر آرہے اور ایک میں پریشان ہیں ،پاکستان کا ایک حصہ ایسا ہے جو معدنیات سے مالامال ہے ،وہاں انسان اور جانور ایک ہی جگہ سے پانی پیتے ہے،ہم نے وفاق کو مظبوط کرنے کیلئے کہا تھا کہ صوبوں کو برابر کا اختیار دیں ۔
رضاء ربانی 18 ویں ترمیم کے خالق ہے ،ہر پانچ سال بعد صدر صاحب ایک خط نکالتے اور اس کے مطابق پیسے دیتے ہے صوبوں کو اگر اٹھارویں ترمیم کو چھیڑا گیا تو اس کے نتائج مثبت نہیں آئیں گے،خدا کیلئے اس ریاست اور اس ملک پر رحم کریں ،برابری کی بنیاد پر ایک پاکستان بنائے،وسائل کو برابر سے تقسیم کریں،قرضوں کا جو بوجھ ہے کیا وہ صوبوں نے لیا ہے،جو وفاق کا کام تھا وہ انہوں نے نہیں کیا ایف بی آر سے پیسے کیو جمع نہیں کئی ،وفاق اپنی نائلاقیوں کو صوبوں پر نہ ڈالے ۔سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے کہا کہ پاکستان ایک وفاق ہے یہان حق حکمرانی عوام کا ہے اسٹیبلشمنٹ کا نہیں ،اٹھارہویں ترمیم پر سیاسی جماعتوں نے ایک سال محنت کی ،اٹھارہویں ترمیم سے صوبے مالیاتی طورپر متوازن ہوئے ،وفاق میں مختلف ناموں سے وزارتیں دوبارہ بنائی گئی ہیں ،ہمیں کسی بھی حالت میں صدارتی نظام منظور نہیں ،اٹھارہویں ترمیم نے صوبوں کو حقوق دئے ہیں کسی کی غلامی نہیں مانیں گے۔