کراچی (این این آئی)تحریک انصاف وفاقی حکومت میں اپنی اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کو منانے میں ناکام رہی اور ایم کیو ایم کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے اپنا استعفیٰ واپس لینے اور کابینہ میں دوبارہ شمولیت سے انکار کردیا ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے مطالبات پورے نہ کیے جانے پر متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی نے گزشتہ روز وفاقی کابینہ سے علیحدہ ہونے کا اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی آئی ٹی کی وزارت بھی چھوڑ دی تھی۔پیر کو حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کا وفد اسد عمر کی سربراہی میں ایم کیو ایم پاکستان کے دفتر بہادرآباد پہنچا جہاں ان کے ہمراہ فردوس شمیم، حلیم عادل شیخ، خرم شیر زمان، رکن قومی اسمبلی آفتاب ملک اور دیگر اراکین اسمبلی بھی موجود تھے۔حکومتی وفد کے اراکین نے بہادرآباد پہنچنے کے بعد گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی کوشش ہو گی کہ خالد مقبول صدیقی کو استعفیٰ واپس لینے کے لیے قائل کر سکیں تاکہ وہ وفاقی وزیر کی حیثیت سے کام کرنا شروع کردیں۔روایت کے برعکس جب تحریک انصاف کا وفد بہادرآباد پہنچا تو ایم کیو ایم کی جانب سے ان کا استقبال نہیں کیا گیا جس کے بعد اندر جا کر دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات شروع ہوئے۔دونوں جماعتوں کے وفود کے درمیان ایک گھنٹے سے زائد ملاقات جاری رہی جس میں تحریک انصاف کی خالد مقبول صدیقی کو منانے کی تمام کوششیں بے سود رہیں۔ایم کیو ایم کی جانب سے مذاکرات میں فیصل سبزواری، خواجہ اظہار الحسن سمیت دیگر اہم رہنما شریک تھے لیکن حکومتی مذاکراتی ٹیم ایم کیو ایم کو منانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔
ایم کیو ایم کی جانب سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ ان سے بار بار وعدے کیے گئے لیکن ان وعدوں کے برعکس اب تک کسی بھی قسم کے اقدامات نہیں کیے گئے۔اسد عمر نے خالد مقبول صدیقی سے کہا کہ آپ کیوں ناراض ہوگئے، اب ناراضگی ختم کریں، ایم کیو ایم کے مطالبات درست ہیں انہیں ہمیشہ تسلیم کیا ہے، معاملات الگ ہونے سے نہیں مل بیٹھ کر بات چیت کے ذریعے حل ہوں گے۔ جس پر خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ ہمیں بات چیت نہیں نتیجہ چاہیے۔
ایک ارب دینے کے لیے کتنی منت سماجت کرنا پڑے گی اور ہم اپنے لیے نہیں بلکہ کراچی کا حق مانگ رہے ہیں۔ملاقات کے اختتام پر اسد عمر اور خالد مقبول صدیقی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ملاقات کو خوش آئند قرار دیا۔اسد عمر نے کہا کہ خالد مقبول صدیقی کی خواہش ہے کہ وہ کابینہ کا حصہ نہیں بنیں گے لیکن ہماری خواہش ہے کہ وہ کابینہ کا حصہ رہیں۔خالد مقبول صدیقی نے اپنی گفتگو میں اسے مذاکرات کے بجائے ملاقات قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقات پہلے سے طے شدہ تھی اور اسی سلسلے میں تحریک انصاف کے وفد نے آج دورہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ملاقات کے دوران قومی امور اور سندھ کے شہری علاقوں کے امور پر بھی گفتگو ہوئی اور ہم یہاں آنے پر اسد عمر کے شکر گزار ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے تمام وعدے یاد ہیں کل کی پریس کانفرنس میں کوئی سنسنی خیزی نہیں تھی،ہم نے پہلے بھی کہا تھا حکومت سے تعاون جاری رکھیں گے۔وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا کہ کراچی سے متعلق وزیراعظم کے منصوبوں کو ایم کیو ایم کی قیادت سے شیئر کیا، کچھ ایسے معاملات ہیں جن پر توجہ کی ضرورت ہے۔شہر قائد سے متعلق اسد عمرکا کہنا تھا کہ و جو حق دہائیوں سے نہیں ملا وہ دلانا ہے، مشترکہ جدوجہد ہے، کوشش ہے ساتھ مل کر کراچی کے لیے کام کریں۔
انہوں نے کہا کہ فروری کے پہلے ہفتے میں وزیراعظم کراچی آئیں گے، وزیراعظم کراچی میں منصوبوں کا افتتاح کریں گے، کراچی کے چھوٹے ترقیاتی منصوبے تو جاری ہیں، بڑے ترقیاتی منصوبے جلد شروع ہوں گے۔ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے اسد عمر کا کہنا تھا کہ کراچی میں انشا اللہ 162 ارب روپے سے زائد کے منصوبے ہوں گے، کراچی میں پانی کا منصوبہ کے فور تاخیر کا شکار ہوا، سندھ حکومت جیسے ہی کیفور پر رپورٹ مرتب کرے گی کابینہ سے منظور کرائیں گے۔
کے فور سے متعلق اسد عمر کا کہنا تھا کہ منصوبے کی لاگت کم سے کم دو گنا بڑھ چکی ہے، لاگت بڑھنے کے باوجود وفاقی حکومت کے فور منصوبے میں تعاون جاری رکھے گی۔ انہوں نے کہا کہ کراچی کے سب سے بڑے 2مسائل پانی اور ٹرانسپورٹ ہیں۔وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے جو وعدے کیے تھے ان پر لگن سے کام جاری ہے، وزیراعظم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ نوکریاں صرف سرکار دے گی، نوکریاں سرکار میں بھی آتی ہیں اور پرائیوٹ سیکٹر میں بھی آتی ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر اسد عمر نے کہا کہ گورنر سندھ کی تبدیلی کا امکان نہیں ہے، وہ زبردست کام کر رہے ہیں ،ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ووٹ بڑھتے ہیں کم نہیں ہوتے ۔اسد عمر نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے جو وعدے کیے تھے ان پر لگن کے ساتھ کام کررہے ہیںانہوںنے کہا کہ سردی کا مائنس ون تو ہوگیا ، دوسرے مائنس ون کا خواب دیکھنے والے صرف خواب ہی دیکھتے رہیں۔