اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سینئر کالم نگار جاوید چوہدری اپنےکالم ’’قومی مفاد‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔وہ رکے‘ لمبا سانس لیا اور بولے ”ہمارے قائد میاں نواز شریف 45 سال سے ذوالفقار علی بھٹو بننے کی کوشش کررہے ہیں لیکن جب بھی عمل کا وقت آتا ہے تو یہ کوئی نہ کوئی سیاسی حماقت فرما دیتے ہیں‘ آپ 1990ءسے لے کر2018ءتک ہمارے قائد کے سیاسی اتار چڑھاؤ کا تجزیہ کر لیں‘
یہ آپ کو ہر دور میں فوج سے لڑتے اور مار کھاتے نظر آئیں گے‘ قائد 1990ءمیں پہلی مرتبہ وزیراعظم بنے اور جنرل آصف نوازجنجوعہ کے ساتھ لڑائی شروع کر دی‘ جنرل آصف نواز جنجوعہ 8 جنوری 1993ءکو ہارٹ اٹیک کی وجہ سے انتقال کر گئے۔پارٹی نے سکھ کا سانس لیا‘ میاں نواز شریف نے خود جنرل عبدالوحید کاکڑ کو آرمی چیف بنایا‘ سول اور ملٹری دونوں ایک پیج پر آ گئے‘ہمارا خیال تھا ہم پانچ سال پورے کر جائیں گے مگر یہ پیج بھی بمشکل چھ ماہ چل سکا اور جنرل عبدالوحید کاکڑ نے صدر غلام اسحاق خان اور میاں نواز شریف دونوں کو فارغ کر دیا‘ میاں نواز شریف 1997ءمیں دوسری بار وزیراعظم بنے‘ جنرل جہانگیر کرامت آرمی چیف تھے‘ یہ پروفیسر ٹائپ آرمی چیف تھے‘ قانون اور قاعدے کے مطابق چلتے تھے۔میاں نواز شریف نے اقتدار سنبھالتے ہی ان کے ساتھ بھی محاذ آرائی شروع کر دی‘ یہ محاذ آرائی جنرل جہانگیر کرامت کے استعفے پر اختتام پذیر ہوئی‘ میاں نواز شریف نے جنرل پرویز مشرف کو خود منتخب کیا‘ یہ سنیارٹی میں تیسرے نمبر پر تھے‘ گوہر ایوب پانی و بجلی کے وزیر تھے‘ جنرل علی قلی خان ان کے برادرنسبتی ہیں‘یہ جنرل مشرف سے سینئر تھے‘ گوہر ایوب انہیں آرمی چیف بنوانا چاہتے تھے مگر میاں نواز شریف اس عہدے پر کسی تگڑے خاندان کا کوئی جنرل نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔جنرل پرویز مشرف کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں کوئی نہیں تھا
لہٰذا یہ ہمارے قائد کی نظر انتخاب میں آ گئے‘ جنرل مشرف نواز شریف کو پسند کرتے تھے‘ میاں شریف نے ان کو اپنا بیٹا بھی بنا لیا مگر یہ رشتہ بھی زیادہ دنوں تک نہ چل سکا اور اس کا اختتام بھی 12 اکتوبر 1999ءکی شکل میں نکلا‘ میاں نواز شریف تیسری بار5جون2013ءکو وزیراعظم بنے‘ جنرل اشفاق پرویز کیانی آرمی چیف تھے‘ میاں نواز شریف کا ان سے بھی پھڈا ہو گیا‘ میاں صاحب نے خود تین جنرلز میں سے
جنرل راحیل شریف کو منتخب کیا۔سول اور ملٹری دونوں ایک پیج پر آ گئے لیکن یہ پیج بھی پھٹتے زیادہ دیر نہ لگی‘ جنرل راحیل شریف کے دور میں میاں نواز شریف پر ایکسٹینشن کا دباؤ بھی آیا‘ریٹائرمنٹ ایج بھی 60 سے 63 سال کرنے کی تجویز دی گئی اور جنرل راحیل شریف کو فیلڈ مارشل بنانے کا مشورہ بھی دیا گیا مگر میاں نواز شریف نہیں مانے‘ یہ ادارے کو شخصیات سے بالاتر سمجھتے اور کہتے تھے‘
جنرل راحیل شریف کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ آرمی چیف بنا دیے گئے‘ جنرل باجوہ آج بھی میاں نواز شریف کی حب الوطنی کا اعتراف کرتے ہیں۔یہ ان کی شرافت کی بھی تعریف کرتے تھے مگر اس کے باوجود میاں نواز شریف اور جنرل باجوہ کے درمیان بھی اختلافات پیدا ہو گئے“۔وہ رکے لمبا سانس لیا اور بولے ”ہم نے اگر لیٹنا ہی تھا تو ہم جنرل راحیل شریف کے دور ہی میں لیٹ جاتے‘
ہمیں جوتے اور پیاز دونوں نہ کھاناپڑتے‘ ہمارے قائد نے ہمیں دیوار پر چڑھا کر نیچے سے سیڑھی کھینچ لی“ وہ خاموش ہوئے‘ میرے ساتھ ہاتھ ملایا اور تیزی سے باہر نکل گئے اور میں سوچتا رہ گیا آرمی ایکٹ میں ترمیم کے معاملے میں ملک کی تینوں جماعتوں کے موقف میں کیا فرق ہے؟۔