اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)میں نے ان سے پوچھا ”یہ آپ نے کیا کیا؟“ وہ شرمندہ ہو کر بولے ”ہم بھٹو بنتے بنتے میاں نواز شریف بھی نہیں رہے“ میں نے حیرت سے پوچھا ”کیا مطلب“ وہ بولے ”ہم ذوالفقار علی بھٹو سے لاکھ اختلاف کریں لیکن وہ نظریاتی منافقت سے پاک تھے‘ وہ جو کہتے تھے
وہ کرتے بھی تھے‘ وہ اگر جمہوریت‘ آئین اور سویلین سپرمیسی کی بات کرتے تھے تو آپ کو ان کے ہر ایکشن میں یہ نظر بھی آتی تھیں‘ بھٹو نے ملک میں جمہوریت قائم کی‘ وہ اسے طلباء‘ بلدیاتی اداروں اور ٹریڈ یونینز تک لے کر گئے۔سینئر کالم نگار جاوید چوہدری اپنے کالم ’’قومی مفاد‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۔۔۔۔مزدور‘ کسان اور کلرک تینوں کو جمہوری حق دیا‘ ملک کا پہلا متفقہ آئین بھی ذوالفقار علی بھٹو نے بنایا اور حمود الرحمن کمیشن ہو‘ بھارت کی قید سے 90 ہزار فوجیوں کی رہائی ہو یا پھر اپنی مرضی کے جنرلز کی بطور آرمی چیف تعیناتی ہو یہ سارے کام ذوالفقار علی بھٹو نے کیے اور ڈنکے کی چوٹ پر کیے“وہ رکے اور آہستہ سے بولے ” بھٹو نے قید بھی مردانہ وار برداشت کی‘ لیبیا‘ شام‘ سعودی عرب اور ترکی نے بھٹو کی گارنٹی دینے کی کوشش کی‘ یہ ممالک چاہتے تھے پاکستان بھٹو کو ان کے حوالے کر دے‘یہ جنرل ضیاءالحق کو دس سال کا تحریری معاہدہ دینے کے لیے بھی تیار تھے لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے کسی قسم کے این آر او سے انکار کر دیا‘یہ پھانسی چڑھ گئے لیکن ہار نہیں مانی۔