اسلام آباد(سی پی پی ) پاکستان کے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ نوازشریف میں مردم شناسی بہت ہے لیکن مروت اس سے بھی زیادہ ہے اور مروت مردم شناسی کو کھا جاتی ہے۔ بہت سے ایسے فیصلے نہیں ہو سکے جو ہونے چاہئیں تھے، کام نہ کرنے والے وزرا کو ہٹا دینا چاہئے تھا۔نجی ٹی وی کے پروگرام میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاست میں جمود نہیں ہوتا تاہم مقصد نہیں بدلنا چاہیئے۔
حزب اختلاف کا اتحاد ملک کی ضرورت ہے۔سابق وزیراعظم نوازشریف کے شخصی طرز حکمرانی کے حوالے سے سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نوازشریف کو پارلیمنٹ میں زیادہ بار آنا چاہیئے تھا اور کابینہ کے اجلاس بھی زیادہ ہونے چاہئیں تھے، تاہم انہوں نے اپنے وزرا کے کام میں کبھی مداخلت نہیں کی اور ہر وزیر کو کام کرنے کی آزادی دی۔موروثی سیاست کے بارے میں ان کا نکتہ نظر تھا کہ پوری دنیا میں یہ چیز رائج ہے، بھارت اور امریکہ میں بھی موروثیت موجود ہے تاہم قائد کی ذاتی صلاحیتیں اہم ہوتی ہیں۔ مریم نواز نے نہ ہی جماعتی اور نہ ہی حکومتی عہدہ رکھا ہے، اس کے باوجود عام کارکن انہیں اہمیت دیتے ہیں، ان کے لیے سیاست میں جگہ موجود ہے۔انہوں نے کہا کہ بدعنوانی کا خاتمہ ضرور ہونا چاہیئے لیکن اس کے لیے جو طریقہ اپنایا جا رہا ہے اس سے مقصد حاصل نہیں ہو گا کیونکہ اسے انتقامی کارروائی سمجھا جا رہا ہے۔ نیب ایک کالا قانون ہے اس کے قوانین میں تبدیلیوں کے لیے تمام سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے ضروری ہے۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ نیب نے آج تک کسی ایک بھی شخص کو سزا نہیں دی، ملک کو جتنا نقصان نیب نے پہنچایا ہے اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔فوجی عدالتوں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک اچھا قانون نہیں ہے، فوجی عدالتوں میں توسیع ایک مشکل فیصلہ ہے، حکومت کو چاہیئے کہ وہ پارلیمنٹ میں آ کر اس بارے میں بات کرے تاکہ سیاسی جماعتیں کوئی فیصلہ کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ ہر ادارے کو اپنے دائرے میں رہتے ہوئے اصلاح کرنی چاہیئے، اس وقت کوئی بھی بیوروکریٹ کام کرنے پر تیار نہیں ہے کیونکہ اسے نیب اور عدالتوں کا غیرضروری خوف ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے بارے میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ انہوں نے صرف باتیں کی ہیں، انہوں نے نہ کوئی کارکردگی دکھائی اور نہ ہی حکومت کی کوئی سمت نظر آئی ہے، انہوں نے جھوٹ بول کر معیشت کو کسادبازاری کا شکار کر دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو 30 ارب کی برآمدات اور 7 فیصد شرح نمو کی ضرورت ہے، اس کے لیے تمام فریقوں کو مل بیٹھنا چاہیئے۔این ایف سی ایوارڈ کے متعلق ان کی رائے تھی کہ اگر اسے ختم بھی کر دیا جائے اور وفاق پورے پیسے اپنے پاس رکھ لے پھر بھی معیشت کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔