آج سپریم کورٹ میں لاہور کی اورنج لائین ٹرین کے کیس کی سماعت تھی‘ چیف جسٹس نے منصوبے کے ڈائریکٹر سبطین فضل کی تعریف کی اور انہیں ہدایت کی آپ ہر صورت یہ منصوبہ وقت پر مکمل کریں‘ ٹھیکیدار کا وکیل کھڑا ہوگیا اور اس نے کہا‘ جناب ہم کام کیسے کریں گے‘ ہمیں کام کے پیسے نہیں ملتے‘ چیف جسٹس نے ایل ڈی اے کو حکم جاری کیا‘ آپ کام کا چیک سپریم کورٹ میں جمع کرا دیں اور ٹھیکیدار کو ہدایت کی آپ بینک گارنٹی دے کر یہ چیک وصول کر لیں‘
آپ ملاحظہ کیجئے ملک کے سب سے بڑے صوبے کی انتہائی شریف اور ایماندار حکومت میں اتنی بھی کیپسٹی نہیں کہ یہ اس اورنج لائین کو مکمل کر سکے جس کا نوے فیصد کام پچھلی حکومت مکمل کر چکی ہے اور یہ کام بھی سپریم کورٹ کو کرنا پڑ رہا ہے‘ آپ حالت دیکھئے ڈیم سپریم کورٹ بنا رہی ہے‘ ڈیم کیلئے چندہ بھی چیف جسٹس جمع کر رہے ہیں‘ حکومت نے آئی پی پی پیز کو لوڈ شیڈنگ کے باوجودسولہ ‘سولہ کروڑ روپے اضافی دے دیئے‘ یہ ایشو بھی سپریم کورٹ ہینڈل کر رہی ہے‘ کرپشن اور جعلی اکاؤنٹس کے خلاف تحقیقات بھی سپریم کورٹ کر رہی ہے‘ آبادی کنٹرول کرنے کا کام بھی سپریم کورٹ کے پاس ہے‘ پینے کے صاف پانی کا بندوبست بھی ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے کرنا ہے‘ تجاوزات بھی سپریم کورٹ نے ہٹانی ہیں‘ دبئی میں جائیدادوں کا حساب بھی عدالت نے کرنا ہے‘ اعظم سواتی کا نام بھی کابینہ کی فہرست سے چیف جسٹس نے نکالنا ہے اور اب اورنج لائین کے ٹھیکیدار کو چیک بھی سپریم کورٹ نے دینا ہے تو پھر حکومت کا کیا کام ہے‘ یہ کہاں ہے‘ یہ کس مرض کی دواء ہے، ملک میں پہلی بار سردیوں کے موسم میں بارہ بارہ گھنٹے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے‘ گیس بھی غائب ہے‘ ایکسپورٹس بھی کم ہو رہی ہیں‘ مالیاتی ذخائر بھی گر رہے ہیں‘ گردشی قرضے بھی 14 سو ارب روپے ہو چکے ہیں‘ملکی قرضوں میں بھی 22 سو 40 ارب روپے کا اضافہ ہو چکا ہے اور لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال بھی یہ ہو چکی ہے کہ کل مسلح افراد سابق گورنر سندھ محمد زبیر کی گاڑی کے سامنے بھی کھڑے ہو گئے‘ آخر گورنمنٹ کہاں ہے؟ اگر ہے تو یہ کام کیوں نہیں کر رہی‘ کیا کیپسٹی کا ایشو ہے یا پھر نیت کا فقدان ہے‘ یہ ہمارا آج کا ایشو ہو گا‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔