ہم پاکستانی اس ملک کو مدینہ کی ریاست بنانا چاہتے ہیں لیکن ہم ساتھ ہی یہ بھول جاتے ہیں عاجزی‘ متانت‘ میرٹ‘ انصاف اور برابری‘ مدینہ کی ریاست ان پانچ ستونوں پر کھڑی تھی لہٰذا جب تک قوم بالخصوص حکمران طبقے میں عاجزی نہیں آئے گی‘ اس طبقے میں متانت یعنی سنجیدگی‘ میرٹ پر یقین‘ انصاف کی سپرٹ اور عوام کواپنے برابرحقوق دینے کا حوصلہ پیدا نہیں ہوگا‘ یہ ملک اس وقت تک مدینہ کی ریاست تو دور یہ ریاست بھی نہیں بن سکے گا‘
آپ آج کے دو واقعات دیکھ لیجئے‘ آج میاں نواز شریف کے گارڈز نے سماء ٹی وی کے کیمرہ مین واجد علی کو پارلیمنٹ ہاؤس کے احاطے کے اندر خوفناک تشدد کا نشانہ بنایا‘ آپ یہ مناظر دیکھئے‘ کیمرہ مین کے ہاتھ میں بندوق ہے یا کیمرہ اور یہ گارڈ اس کو کس طرح مار رہا ہے‘ کیا یہ مقبوضہ کشمیر ہے اور یہ کیمرہ مین کشمیری مجاہد ہے اور یہ گارڈ انڈین آرمی کا سولجر ہے‘ یہ کیا ہے؟ اور کیا ہم ان مناظر کے ساتھ اس ریاست کو مدینہ کی ریاست بنا سکتے ہیں‘ میرا خیال ہے حکومت کو اس گارڈ پر اقدام قتل کا کیس بنا کر اسے قرار واقعی سزا دینی چاہیے‘ دوسرا اہم واقعہ پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت کی راولپنڈی کے ایم ایس کو ٹیلی فون کال ہے‘ راجہ بشارت نے حنیف عباسی کی صاحبزادی کے تبادلے کیلئے کال کی‘ راجہ بشارت اور ایم ایس دونوں کا رویہ غلط تھا‘ ایم ایس کو اس طرح جواب نہیں دینا چاہیے تھا اور حنیف عباسی کی بیٹی کو وکٹمائز بھی نہیں کرنا چاہیے تھا‘ یہ رویئے اور سیاسی مخالفین کے بچوں سے سیاسی انتقام یہ بھی ریاست مدینہ کے راستے میں رکاوٹ ہے‘ ریاست کو اب 71 سال بعد یہ تمام ایشوز بھی فکس کر لینے چاہئیں‘ نہ وزراء کو فون کرنا پڑے اور نہ ایم ایس جواب دیں‘ ہم آج کے موضوع کی طرف آتے ہیں، آصف علی زرداری نے اینٹ سے اینٹ بجانے کے اعلان کے بعد دوسرا خوفناک بیان جاری کر دیا‘ اس بیان کا مقصد کیا ہے‘یہ ملک میں ارلی الیکشن کی دوسری آواز ہے‘ کیا واقعی نئے الیکشن ہو رہے ہیں‘ یہ ہمارا آج کا ایشو ہوگا اور آج میاں شہباز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان اسمبلی کی گیلری میں ملاقات بھی ہو گئی‘ ملاقات کی ٹائمنگ بھی بہت اہم ہے‘ ہم یہ بھی ڈسکس کریں گے‘ ہمارے ساتھ رہیے گا۔