اسلام آباد(این این آئی)احتساب عدالت کے جج نے نوازشریف کی منگل کو حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں فلیگ شپ ریفرنس میں بیان قلمبند کرانے کیلئے (آج) بدھ کو طلب کرلیا۔ منگل کو احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کی جس میں نیب پراسیکیوٹر واثق ملک گزشتہ روز اپنے دلائل مکمل کرچکے اور منگل کو سابق
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے حتمی دلائل کا آغاز کیا۔وکیل صفائی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نیب کا کیس ہے کہ نواز شریف نے بے نامی کے طور پر جائیدادیں بنائیں تاہم بے نامی ٹرانزیکشن سے متعلق استغاثہ کوئی ثبوت نہیں لاسکا۔خواجہ حارث نے کہا بیٹے نے ہل میٹل کی رقوم نواز شریف کو بھیجیں، صرف اس رقم سے بے نامی کے تمام اجزاء پورے نہیں ہوتے، العزیزیہ سے کوئی رقوم نوازشریف کو نہیں بھیجی گئیں اور ان کا پہلے دن سے ایک ہی موقف رہا ہے۔وکیل صفائی نے کہا کہ ہل میٹل کی رقوم سے متعلق جے آئی ٹی نے کوئی تحقیقات نہیں کیں، نوازشریف کو بے نامی مالک کہہ دیا گیا لیکن کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے۔خواجہ حارث نے کہا کہ العزیزیہ اسٹیل مل کے قیام کے وقت نواز شریف کے پاس عوامی عہدہ نہیں تھا اور جو جائیداد ان کی ہے ہی نہیں وہ اس کی وضاحت کیوں دیتے جبکہ استغاثہ فرد جرم میں لگائے گئے الزامات ثابت نہیں کرسکا۔نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ جرم میں معاونت یا مشورے میں ایک ہی کیس میں سزا ہوئی، وہ بھٹو کی سزائے موت تھی، یہ استغاثہ کو ثابت کرنا تھا کہ نواز شریف نے کیسے العزیزیہ کے قیام میں معاونت کی۔دلائل کے دوران خواجہ حارث نے مؤقف اختیار کیا کہ استغاثہ کی جانب سے کہا گیا کہ گلف اسٹیل ملز کا معاہدہ جعلی نکلا، نواز شریف نے کبھی بھی گلف اسٹیل ملز کی فروخت پر انحصار نہیں کیا اور ان کے پاس تو گلف اسٹیل کی کوئی براہ راست معلومات ہی نہیں تھیں۔خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے خود لکھا گلف اسٹیل سے متعلق نواز شریف نے سنی سنائی باتیں کہیں، قطری خطوط کے بارے میں کہا گیا ان کی کوئی حقیقت نہیں، نواز شریف نے خود تو کبھی قطری خطوط پر انحصار نہیں کیا۔فاضل جج نے استفسار کیا آپ کا نکتہ یہ ہے
کہ قطری خطوط صرف حسین نواز کا موقف تھے، نواز شریف نے تو 342کے بیان میں بھی ان پر انحصار نہیں کیا۔خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جی قطری خطوط صرف حسین نواز کی جانب سے ہی تھے، شواہد کے مطابق العزیزیہ کے 3 شیئر ہولڈرز میں عباس شریف، رابعہ شریف اور حسین نواز تھے۔نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ قانون کے مطابق بے نامی کی تعریف کیا ہے؟ قانون کی تعریف کے مطابق بے نامی کسی اور کی جائیداد اپنے پاس رکھنے والا ہوتا ہے، اس تعریف کے
مطابق جائیداد کی ملکیت کسی اور کے پاس ثابت ہونا ضروری ہے۔خواجہ حارث نے کہاکہ جائیداد کی ملکیت کا تعلق ملزم سے ثابت ہونا ضروری ہے اور ملزم کو صرف اس جائیداد سے کوئی فائدہ ملنا اْسے مالک نہیں بنا دیتا۔میاں نوازشریف کی جانب سے ایک دن کیلئے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دی گئی جس پر عدالت نے شدید برہمی کا اظہار کیا۔احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے کہا کہ یہ کچھ زیادہ ہی ہوگیا ہے، روز استثنیٰ، روز استثنیٰ، میں کچھ کہتا نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے
کہ روز درخواست دائر کردیں، ہم دوسرے کام میں مصروف ہیں اس لیے میں کچھ نہیں کہتا، میں سوچ رہا تھا کہ سپریم کورٹ میں پیشی کے بعد نوازشریف یہاں پیش ہوں گے۔اس موقع پر نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے بتایا کہ فلیگ شپ ریفرنس میں نوازشریف کے بیان کیلئے 4دسمبر کی تاریخ مقرر تھی۔عدالت نے سابق وزیراعظم کی جانب سے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں فلیگ شپ ریفرنس میں بیان قلمبند کرانے کیلئے (آج) بدھ کو طلب کرلیا۔بعد ازاں عدالت نے العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس کی مزید سماعت تک ملتوی کردی۔