اسلام آباد (این این آئی) وزیر اعظم عمران خان سے سینئر صحافیوں نے انٹرویو کے دور ان ڈی پی او پاکپتن کے حوالے سے سوال کیا اور پوچھا کہ سپریم کورٹ میں وزیراعلیٰ پنجاب نے غلطی تسلیم کی لیکن آپ کی طرف سے کوئی ردعمل نہیں آیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے اور عثمان بزدار پنجاب کے چیف ایگزیکٹیو ہیں ان کے پاس ایک شہری آکر رپورٹ کرتا ہے اور ٹھیک رپورٹ کرتا ہے کہ پولیس نے زیادتی کی ہے تو ایک چیف ایگزیکٹو کیا پولیس افسر کو بلا کر کیا پوچھ نہیں سکتا یہ کون سی دنیا میں ہوتا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ چیف جسٹس نے کئی زبردست کام کیے ہیں لیکن مجھے تھوڑا اعتراض ہے ان پر کہ ایک صوبے کا چیف ایگزیکٹیو ہے وہ پوچھ رہا ہے کیا غلطی کررہا ہے کوئی کہے کہ کسی کی بیٹی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو وہ پوچھے نہیں وہ اس کی ذمہ داری ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ مجھے افسوس ہوا کہ انہوں نے زلفی بخاری کو سپریم کورٹ میں کہا کہ میں نے اقرباپروی کی ہے میں اس چیز کو اس لیے رعایت دیتا ہوں کہ میں دس برس تک پاکستان ٹیم کا کپتان رہا کوئی مجھے بتائے کہ میں نے ایک رشتہ دار، دوست کو سپورٹ کیا، نمل یونیورسٹی میں بتائے، شوکت خانم میں بتائے اور پشاور میں بتائے کہ ایک آدمی کو اقربارپروری یا فیورٹ کے طور پر لیا۔وزیراعظم نے کہا کہ مجھے خیبرپختونخوا میں حکومت کو پانچ سال ہوئے ایک مجھے بتائیں کہ میں نے ایک رشتہ دار دوست کو کوئی پوزیشن دی ہو ٗمجھے اس کا بڑا افسوس ہوا کہ چیف جسٹس صاحب نے سپریم کورٹ میں کہا کہ یہ اقربا پروری ہوئی ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ میں نے آج تک کسی ادارے میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی، میری بہن کا نام آرہا ہے، پوچھیں میں نے کسی سے مداخلت کی۔انہوں نے کہاکہ پنجاب کو ایسا وزیراعلیٰ ملا نہیں جو ہر وقت دستیاب ہیں اور اس کے دروازے ہر وقت کھلے ہیں اور لوگ آتے ہیں اور انہوں نے ڈی پی او پاکپتن کا تبادلہ کیا نہیں بلکہ اس وقت کے آئی جی نے کیا ہے۔